پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ انتہائی دیانت داری اور فرض شناسی کے ساتھ سپریم کورٹ میں کام کررہے ہیں وہ سپریم کورٹ میں آنے والے افراد کے ساتھ بہترین گفتگو بھی کررہے ہیں اور ایسے پیغامات دے رہے ہیں جو میڈیا کی خبریں بن رہے ہیں آج ایک شادی شدہ جوڑے کو بھی دوران سماعت انھوں نے ایسے ریمارکس دیے جو باقی قوم کے لیے سیکھ کا باعث بن سکتے ہیں ان کی کوشش ہے کہ کم سے کم لوگ عدالتوں میں آئیں اور اپنے معاملات کو خوش اسلوبی سے خود نبٹانے کی کوشش کریں -سپریم کورٹ میں 2کمسن بچیوں کی حوالگی کے کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ خود محبت کی شادیاں کر لیتے ہیں پھر مسائل عدالت کیلئے بن جاتے ہیں۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں دو کمسن بچیوں کی حوالگی کے کیس میں ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بنچ نے سماعت کی،وکیل والد نے کہاکہ بچیاں والد کے پاس ہونی چاہئیں کیونکہ ماں رات کو نوکری کرتی ہے،بچیوں کی ماں کے پاس دیکھ بھال کا وقت ہی نہیں ہوتا،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ وکیل صاحب ! اسلام میں ’’بچوں کی پرورش‘‘ کا اصول آپ نے پڑھا ہے یا نہیں؟شریعت کے مطابق بچے ماں کے پاس رہتے ہیں،ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں ہمارے کام مسلمانوں والے نہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ صرف نماز، روزہ اور حج کافی نہیںِ انسانیت اور اخلاق بھی لازم ہیں،والدین کی آپس کی ناراضگی بچوں کا مستقبل خراب کر دے گی۔
چیف جسٹس پاکستان نے بچیوں کے والد سے سوال کیا کہ کیا آپ نے پسند کی شادی کی یا ارینج میرج تھی؟بچوں کے والد نے کہاکہ میری پسند کی شادی تھی، اس پر قاضی فائز عیسیٰ نے برہمی کا اظہار کیا .چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ خود محبت کی شادیاں کر لیتے ہیں پھر مسائل عدالت کیلئے بن جاتے ہیں،سپریم کورٹ نے والدین کی رضا مندی سے کیس نبٹاتے ہوئے دونوں بچیوں کو ماں کے حوالے کرنے کا حکم دیدیا،عدالت نے کہا کہ بچیوں کے والد ہفتے میں ایک بار اتوار کے روز صبح 10سے 5بجے تک بچیوں سے ملاقات کر سیکں گے انھوں نے والد کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر والد کی جانب سے عدالتی حکم عدولی ہوئی تو توہین عدالت کی کارروائی ہو گی ۔