حریم شاہ نے جو کہا سچ کردکھایا ان کا کہنا تھا کہ میں طاقت ور ہوں کچھ بھی کر سکتی ہوں اور آج وہ عدالت سے اپنے خلاف کاروائی روکنے کا عدالتی حکم لینے میں کامیاب ہوگئیں سندھ ہائی کورٹ نے منی لانڈرنگ کیس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو ٹک ٹاک کی مشہور حریم شاہ کے خلاف کارروائی سے روک دیا۔
ایس ایچ سی نے پیر کو حکم امتناعی جاری کیا جب حریم شاہ کے وکیل نے ان کے شوہر سید بلال حسین شاہ کی جانب سے منی لانڈرنگ کیس میں ایف آئی اے کی انکوائری کے خلاف فوری درخواست دائر کی۔درخواست گزاروں نے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر، وفاقی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی، پی ٹی اے اور اسٹیٹ بینک کو مدعا کے طور پر نامزد کرتے ہوئے، حریم شاہ کو 13 جنوری کو جاری کردہ ایف آئی اے کے کال اپ نوٹس کو چیلنج کیا تھا، جس میں انہیں 19 جنوری کو ایجنسی کے حکام کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ حریم لندن میں ہونے کی وجہ سے انکوائری میں شامل ہونے کے لیے دی گئی تاریخ پر ایف آئی اے کے سامنے پیش نہیں ہو سکیں۔درخواست میں کہا گیا کہ حریم اس وقت لندن میں ہیں۔درخواست میں کہا گیا کہ ‘غیر ملکی کرنسی کے حوالے سے میری ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے، تاہم میں نے اس ویڈیو کے حوالے سے وضاحتی بیان جاری کیا ہے’۔
حریم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے کی جانب سے سوشل میڈیا سیلیبریٹی کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کے احکامات کے باوجود وہ تحقیقات میں ایجنسی کے ساتھ تعاون کرنا چاہتی ہیں لیکن برطانیہ سے واپسی پر گرفتاری کا خدشہ ہے۔وکیل نے عدالت کو یقین دلایا کہ حریم پاکستان واپس آتے ہی انکوائری میں شامل ہو جائیں گی۔
اس پر، سندھ ہائی کورٹ نے حریم کو لندن سے واپسی تک ایف آئی اے کی جانب سے جاری سمن سے استثنیٰ دے دیا اور ایجنسی کو مشہور شخصیت کے خلاف کسی بھی قسم کی زبردستی کارروائی سے روک دیا۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آئندہ سماعت تک درخواست گزار کے خلاف کوئی زبردستی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
عدالت نے ایف آئی اے سندھ کے ذمہ دار کو ذاتی حیثیت میں تفتیش کرنے والے اہلکار کو بھی آئندہ سماعت پر طلب کر لیا، جو مارچ کے پہلے ہفتے میں ہونی ہے۔
کاش عدالتیں غریبوں کو بھی اسی طرح سٹے دے دیا کریں جس طرح حریم شاہ کو دیا ہے پھر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا دکھ اس وقت ہوتا ہے جب عدالتیں بھینس، بکری یا مرغی چور کو کئی سال تک جیلوں سے رہائی کا حکم نہیں دیتیں اور کروڑوں اربوں کی بدعنوانی کر نے والے یا قتل کے مقدمے میں ملوث افراد ضمانت لے کر ملک سے فرار ہوجاتے ہیں اور پھر کبھی پکڑے نہیں جاتے