آج ایک بار پھر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے �اختیارات سے تجاوز کرنے اور عدالت کا وقت برباد کرنے پر ایک اور سرکاری افسر کو جرمانہ کردیا -آج سپریم کورٹ میں انکم ٹیکس کمشنر کے ٹیکس کی تشخیص کے اختیار سے متعلق نظرثانی کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3رکنی بنچ نے سماعت کی، دوران سماعت ایڈیشنل کمشنر ان لینڈ ریونیو پشاور سہیل احمد عدالت میں پیش ہوئے ۔عدالت نے کیس کے حکمنامے میں اہم آبزرویشنز دیں-اور تمام افسروں کو قانون کے تابع ہوکر نوکری کرنے کا حکم دیا –
وکیل نے کہاکہ کمشنر ان لینڈریونیو پشاور نے ٹیکس کی تشخیص کے اختیارات ڈپٹی کمشنر کو دیئے ہیں جس پر ،چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کمشنر ان لینڈ ریونیو پشاور نے اپنے تمام اختیارات ڈپٹی کمشنر کو کیسے منتقل کردیئے؟انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 122کے تحت کمشنر اپنے اختیارات کسی کو دینے کا مجاز نہیں،اختیارات کی منتقلی کا گزٹ نوٹیفکیشن کہاں ہے؟سپریم کورٹ نے ایف بی آر کو تمام آرڈز اور نوٹیفکیشنز ویب سائٹ پر اپلوڈ کرنے کا حکم دیدیا، اپنے حکم نامے میں اہم آبزرویشنز دیتے ہوئے قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ٹیکس وصولی کے سب سے بڑے ادارے ایف بی آر کو شفاف ہونا چاہئے،ایف بی آر شفاف نہیں ہو گا تو عوام کا اعتماد کیسے حاصل کرے گا؟ایف بی آر شفاف نہیں ہوگا تو عوام کو ٹیکس ادائیگی پر آمادہ کیسے کرے گا؟
سپریم کورٹ نے انکم ٹیکس کمشنر کو عدالت کا وقت ضائع کرنے پر 10ہزار روپے جرمانہ کر دیا اور ایک ہفتے میں جرمانہ کسی فلاحی ادارے کو ادا کرکے رسید جمع کرانے کا حکم دیدیا،سپریم کورٹ نے کمشنر ان لینڈ ریونیو ایف بی آر کی نظرثانی درخواست خارج کردی ۔