آج پشاور میں یوتھ پروگرام کی تقریب کے دوران وزیراعظم نے پھر انتہائی قابل تکلیف بات دہرادی -ان کا کہنا تھا کہ میں یا ہمارے دوسرے وزیر اور افسران جب امیر ممالک کے دورے پر جاتے ہیں اور بیرون ممالک میں ہمارا جو استقبال کیا جاتا ہے تو میں ان لوگوں کے چہروں کو دیکھتا ہوں،استقبال کرنے والوں کے چہرے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ یہ آگئے ہم سے پیسہ مانگنے۔
آئی ایم ایف کا پروگرام خوشی سےنہیں مجبوری سے قبول کیا، یہ لمحہ فکریہ ہے،لمحہ فخریہ نہیں، وزیر اعظم شہباز شریف
مزید پڑھیے: https://t.co/Zit4OEWDZf pic.twitter.com/vAAoj01WVp
— Geo News Urdu (@geonews_urdu) July 11, 2023
پشاور میں یوتھ پروگرام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف نے کہاکہ خیبرپختونخوا کی عوام نے دلیری کے ساتھ دہشتگردی کا مقابلہ کیا اور بے پناہ قربانیاں دیں ، وزیراعظم نے کہاکہ ایک لاکھ لیپ ٹاپس پورے پاکستان میں میرٹ کی بنیاد پر تقسیم کئے جارہے ہیں،لیپ ٹاس کی تقسیم سے ملک میں کلاشنکوف کا کلچر ختم ہو گا، بے روز گاری ختم ہو گی ،ان کاکہناتھا کہ اگرچہ ہمیں دنیا قرض تو دے رہی ہے مگر یہ لمحہ فکریہ ہے، لمحہ فخریہ نہیں، سعودی عرب کی جانب سے 2ارب ڈالر پاکستان کے خزانے میں آچکے ہیں، سعودی ولی عہد، سعودی حکومت کا شکریہ ادا کرتا ہوں انھوں نے مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا۔
میرا بس چلتا تو ایک لاکھ کے بجائے دس لاکھ لیپ ٹاپس تقسیم کرتا، وزیراعظم شہباز شریف pic.twitter.com/yqqGaGlwv3
— Geo News Urdu (@geonews_urdu) July 11, 2023
وزیراعظم شہبازشریف کاکہناتھا کہ ہمسایہ اگر ہم سے آگے نکل گیا ہے تو قصور ہمارا ہے ، نوے کی دہائی میں پاکستانیہ روپیہ بھارتی روپے سے زیادہ تھا، کپاس کی برآمد بھارت سے زیادہ تھی، ملک صرف محنت اور مسلسل جدوجہد کی وجہ سے کامیاب ہوتے ہیں،سب متحد ہو کر کام کریں گے تو پاکستان خوشحال ہوگا-انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف کا پروگرام خوشی سے نہیں، مجبوری سے قبول کیا،ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگا ، ملک میں خوشحالی ہوگی، بھکاری پن کے خاتمے کیلئے ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا، 2ارب ڈالرسے پاکستان کی معیشت مزید مستحکم ہوگی۔ان کاکہناتھا کہ زراعت، آئی ٹی، معدنیات، برآمدات کیلئے جامع پالیسیاں مرتب کی جارہی ہیں، آئیں ملکر ملک کی تقدیر بدل دیں-کاش وہ یہ بھی بتا دیتے کہ 90 کی دہائی میں کن کن افراد نے اس دور میں ملک پر حکومت کی اور اس دوران ملک کی معیشت کہاں سے کہاں گئی – ملک پر اتنا قرض کیسے چڑھ گیا -اور کون کون اس ذمہ دار ہے –