میانمار جہاں مسلمانوں پر بے تحاشہ ظلم توڑے گئے تھے اس وقت میانمار پر آنگ سان سوچی کی حکمرانی تھی مگر پھر وقت نے پلٹا کھایا کھایا مظلوموں کی بددعا رنگ لائی اور اس ظالم حکومت کا تختہ الٹ گیا اب ان کی جماعت پر سخت فیصلے بھی آرہے ہیں اب کہا گیا ہے کہ میانمار کی فوجی حکومت نے جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی کی جماعت سے تعلق رکھنے والے چار اراکین کو پھانسی دے دی ،ان پر سفاکانہ اور دہشتگردانہ کارروائیاں کرنے کا الزام تھا جن میں ایک سابق رکن اسمبلی، سرگرم کارکن اور دو دیگر افراد شامل تھے۔
امریکی وزیرخارجہ اینٹونی بلنکن اور یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بورل نے میانمار کی فوجی حکومت کے اس سنگین قد م کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ انسانی حقوق اور آئین اور قانون کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔ میانمار کی حکومت نے چار قیدیوں جن میں آنگ سان سوچی کی پارٹی کے ایک سابق قانون ساز بھی شامل ہیں ان کو تختہ دار پر لٹکا دیا ۔
اس سے قبل نئی فوجی حکومت نے درجنوں افراد کو بغاوت کے الزام کے تحت موت کی سزا سنارکھی تھی تاہم انہیں ابھی تک پھانسی نہیں دی گئی۔آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کےسا بق قانون ساز فیئو زِیاتھا کو جنوری میں موت کی سزا سنائی گئی تھی
دنیا بھر میں موت کی سزا کو سخت ناپسندیدہ عمل سمجھا جاتا ہے اور اس فعل کو ہمیشہ سخت تنقید کا نقشہ بنایا جاتا ہے