بھارتاور دنیا کے دیگر ممالک میں میں جگہ جگہ خواتین حجاب پہن کر اپنی مسلمان بہن مسکان کے ساتھ اظہار یکجہتی کی لیے سڑکوں اور دیگر مقامات پر نکل آئیں ان کا کہنا تھا کہ حجاب کا حکم قرآن کے ذریعے اللہ پاک نے ہم پر فرض کیا ہے اور ہم کسی صورت کسی بھی شخص یا ادارے کو اس پر ممانعت یا پابندی لگانے کی اجازت نہیں دیں گے
ہندوستان کی ایک ریاست میں اسکولوں میں حجاب پہننے پر پابندی پر غصہ اور ناراضگی نہ صرف ہندوستان میں بلکہ بیرون ملک بھی پھیل رہی ہے۔ بدھ کے روز کولکتہ میں سینکڑوں طلباء نے پابندی کے خلاف احتجاج میں نعرے لگائے اور سڑکیں بلاک کردیں۔
کانگریس پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے کہا کہ ہندوستان میں مذہبی لباس پر پابندی لگانے والا کوئی قانون نہیں ہے۔ ” یہاں کوئی قانون نہیں ہے کہ مذہبی لباس جیسے سکھوں کی پگڑی یا گلے میں مصلوب یا ماتھے پر تلک، یہ سب کچھ فرانس کے سرکاری اسکولوں میں منع ہے لیکن ہندوستان میں حجاب پہننے کی اجازت ہے
اس تنازع پرامن کی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے ہندوستان میں بسنے والی خواتین سے اظہار یکجہتی کی لیے ایک ٹویٹ کیاا اور ٹویٹ میں ہندوستانی رہنماؤں سے کہا کہ وہ انتہا پسندوں کو مسلم خواتین کو ہراساں کرنے اور مزہبی جزبات مجروح کرنے روکیں ۔مقامی میڈیا نے پچھلے ہفتے اطلاع دی تھی کہ کرناٹک کے کئی اسکولوں نے وزارت تعلیم کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے حجاب پہننے والی مسلم لڑکیوں کو داخلہ دینے سے منع کر دیا تھا، جس سے والدین اور طالب علموں کی طرف سے احتجاج ہوا تھا۔
ہندو طلباء نے پابندی کی حمایت میں جوابی مظاہرے کیے جس سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوگیا اور حکومت کوحالیہ دنوں میں اسکولوں میں مزہبی کشیدگی کم کرنے کے لیے تین دن کے لیے اسکول اور کالج بند کرنے پڑے ایک عینی شاہد نے بتایا کہ بدھ کو کولکتہ میں احتجاج کرنے والی طالبات میں زیادہ تر حجاب پہننے والی خواتین تھیں اور اس طرح کے مزید مظاہرےآئندہ آنے والے چند دنوں میں پورے بھارت میں متوقع ہیں ۔
ملک کو انتشار سے بچانے کی لیے ہندوستان کے ٹکنالوجی کے مرکز بنگلور نے بدھ کو دو ہفتوں کے لیے اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے گرد مظاہروں پر پابندی لگا دی۔