باڈی بلڈنگ کے ذریعے جسم کو خوبصورت بنانے کا خواب ہر جواں دل میں ہوتا ہے اس کے لیے لوگ شدید محنت اور ورزش کرتے ہیں اور اپنے جسم کو سڈول اور دلکش بنا لیتے ہیں مگر بعض لوگ جلدبازی میں اپنا جسم بڑھانے کے لیے ایسی ادویات استعمال کر تے ہیں جس سے ان کا جسم تو بڑھنا شروع ہوجاتا ہے مگر وہ ایسی بیماریوں کا سبب بن جاتے ہیں جس سے باڈی بلڈرز مختلف قسم کے امراض کا شکار ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات یہ بیماری جان لیوا بھی ثابت ہوتی ہے
پٹھوں کو اچھی طرح سے تراشنے کے شوق نے نہ صرف جمز میں شدید ورزش کے تصور کو جنم دیا بلکہ کچھ لوگوں کو سٹیرائڈز اور فوڈ سپلیمنٹس کے استعمال پر بھی انحصار کرنے پر مجبور کیا حالانکہ یہ شارٹ کٹ ان کی صحت، خاص طور پر قلبی صحت پر سنگین اثرات مرتب کرتے ہیں۔
پہلوانوں کے شہر گوجرانوالہ میں اس سال سٹیرائیڈز کے استعمال کی وجہ سے کم از کم دس نوجوان جان کی بازی ہار چکے ہیں، مقامی باڈی بلڈر ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے ایک نجی ٹی وی چینل پر انکشاف کیا۔
کراس فٹ کے چیئرپرسن شمس الرحمان نے کہا کہ 2021 میں کم از کم 10 سے 11 افراد غیر معیاری سٹیرائیڈز کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔
انہوں نے کہا، “جو نوجوان فلمی ستاروں سے متاثر ہو کر ابھی جم میں ورزش کرنا شروع کر دیتے ہیں، وہ پٹھوں کو حاصل کرنے کے لیے یہ کم لاگت والے سٹیرائڈز لیتے ہیں۔”
ایک ٹرینر کے مطابق، نوجوان اکثر دوائیوں کے بارے میں مناسب معلومات سے محروم ہوتے ہیں اور ورک آؤٹ کے دوران نااہل ٹرینرز کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اس سے ان کی صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔
گوجرانوالہ کے ڈرگ انسپکٹر نوید گلزار کا کہنا ہے کہ مقامی طور پر تیار کی جانے والی ادویات نے باڈی بلڈرز کی صحت پر سنگین اثرات مرتب کیے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکام ایسے سٹیرائیڈ بنانے والوں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ “غیر معیاری سپلیمنٹس اور سٹیرائیڈز فروخت کرنے پر متعدد فارمیسیوں اور میڈیکل سٹورز کو جرمانے اور سیل کر دیا گیا ہے”۔
تاہم گوجرانوالہ کے بازاروں میں مقامی طور پر تیار کردہ سٹیرائیڈز اب بھی دستیاب ہیں۔
ڈاکٹرز کی تحقیق کے مطا بق سٹیرائیڈز استعمال کرنے والوں کے دل ان لوگوں کے مقابلے میں کافی کمزور ہوتے ہیں جو کبھی سٹیرائڈز استعمال نہیں کرتے۔
کمزور دل حضرات کو سخت ٹریننگ کرتے وقت اچانک ہارٹ اٹیک ہوسکتا ہے ۔
اس کے علاوہ سٹیرائیڈ کا طویل مدتی استعمال دل کی شریانوں کی بیماری کو بڑھا سکتا ہے۔
حکومت کی بار بار نشاندہی کے بعد بھی مقامی طور پر تیار کردہ غیر معیاری اور مضر صحت سٹیرائڈز اب بھی دستیاب کیوں ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ چند دن جب تک میڈیا میں بات چلتی رہتی ہے معاملے کو اہمیت دی جاتی ہے اور اس کے بعد پھر وہی کام دوبارہ شروع ہوجاتا ہے خدارا حکومت اس سلسلے میں عملی قدم اٹھائے اور گناہ گاروں کو قرار واقعی سزا دے تب ہی ان معصوم لڑکوں کی جانوں کو بچایا جاسکتا ہے ۔