رابعہ بصری کو قلندر اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ آپ نے انتہائی سادہ زندگی گزاری اور کبی بھی اللہ تعالیٰ سے سے اس کی خوشنودی کے سوا کسی دنیاوی چیز طلب نہیں کی یہی قلندروں کا شیوہ تھا
رابعہ بصری بصرہ (عراق) میں پیدا ہوئیں – کہا جاتا ہےکہ آپ کے والدین اتنے غیریب تھے کہ رابعہ کو کنیز کے طور پر بیچ دیا گیا آپ انتہائی غریب والدین کی چوتھی بیٹی تھی۔ اس لیے نام رابعہ رکھا گیا کیونکہ عربی زبان میں “رابع ” کے لفظی معنی چوتھے کے ہیں۔دوسری روایت کے مطابق اس کے والدین کے مرنے کے بعد اسے غلام بنا کر بیچ دیا گیا۔ دن کے وقت وہ مالک کے گھر کا کام کرتیں اور رات کو نماز پڑھتیں۔ اسی کے مطابق خیال کیا جاتا ہے کہ ایک رات اس کے مالک نے آپ کے ارد گرد ایک روشنی دیکھی جس نے اسے خوفزدہ کردیا اس نے آپ سے معافی مانگی اورصبح ہوتےہی آپ کو آزاد کردیا-اس کے بعد رابعہ بصری نے خود کو عبادت کے لیے وقف کردیا
ایک بار جب رابعہ نے آزادی حاصل کر لی وہ بصرہ کے باہر صحرا میں گئیں اور کئی سال ریگستان میں عبادت کی ، اوراس کے بعد بیت اللہ کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور مکہ،مدینہ کی زیارت کی۔ رابعہ نے خدا کی محبت پر توجہ مرکوز کی ، اور تعلیم دی کہ صرف محبت ہی خدا کا راستہ ہے۔ ان کی لمبی نماز کے اوقات خدا سے چیزیں مانگنے کے لیے نہیں تھے ، بلکہ اس کے ساتھ بات کرنے میں تھے۔ وہ کہتی ہیں ، “میں جہنم کی آگ بجھانا چاہتی ہوں ، اور جنت کے انعامات کو جلا دینا چاہتی ہوں۔ ۔ میں سزا کے خوف سے یا انعام کے وعدے کے لیے عبادت نہیں کرنا چاہتی بلکہ صرف خدا کی محبت کے لیے عبادت کرنا چاہتی ہوں”۔
انہوں نے عورتوں اور مردوں دونوں کو اپنی انقلابی محبت تصوف سکھائی جس کے باعث ایک بھرپور ورثہ پیدا ہوا ۔ وہ ایک مضبوط ارادے والی خاتون تھیں جنہوں نے غلط عقائد پر سخت تنقید کی اور اپنے وقت کے دوسرے صوفی اولیا کی ترقی میں بھر پور مدد کی ۔
آپ نے غربت کی زندگی گزاری۔ جب وہ 80 کی دہائی میں فوت ہوئیں ، اس کے مال میں ایک سرکنڈ کی چٹائی ، ایک چاد، چند مٹی کے برتن اور ایک بستر شامل تھا وہ کہا کرتی تھیں ، “مجھے شرم آنی چاہیے کہ اپنے رب سے دنیا کی چیزیں مانگوں جسکا تعلق سے دنیا سے ہے