اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف سے کہا کہ وہ حنیف عباسی کی بطور معاون خصوصی تعیناتی پر نظر ثانی کریں -یہ حکم عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے حنیف عباسی کی بطور ایس اے پی ایم تقرری کو چیلنج کرنے والی درخواست پر جاری کیا۔یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب نئے تعینات ہونے والے ایس اے پی ایم نے راشد کی وگ لانے والے کو 50,000 روپے انعام دینے کا اعلان کیا تھا، ان کے اس بیان کی مخالفت پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی کی گئی تھی اور جس پر پی پی پی کے سیکرٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔
آج کی سماعت کے آغاز پر جسٹس اطہر من اللہ نے شیخ رشید کو روسٹرم پر بلایا اور عوامی اجتماعات میں عدالتوں پر لگائے جانے والے الزامات پر برہمی کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ سیاسی بیانات دیے جاتے ہیں کہ عدالتیں کسی کے کہنے پر کھولی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر روز جلسوں میں کہا جاتا ہے کہ عدالتیں آدھی رات کو کیوں کھلتی ہیں۔
جسٹس من اللہ نے کہا کہ عدالتیں سب کے لیے کھلی ہیں اور سابق وزیر سے کہا کہ سیاسی بیانات سے عدلیہ پر لوگوں کے اعتماد کو مجروح نہ کریں۔آئی ایچ سی کے چیف جسٹس نے انہیں ہدایت کی کہ عمران خان سے پوچھیں کہ کیا انہیں عدلیہ پر اعتماد نہیں ہے۔ ’’میں آپ کے کیسز سننے سے معذرت کروں گا اور انہیں دوسرے ججوں کے پاس بھیج دوں گا “۔
کیس میں سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن اور حنیف عباسی کے ذریعے وفاق کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جسٹس من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ انصاف ہونا چاہیے اور ہوتا ہوا بھینظر بھی آنا چاہیے ۔جسٹس من اللہ نے پارٹی کے الزامات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ 2014 میں عدالت نے پی ٹی آئی کے گرفتار کارکنوں کو رات 11 بجے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
جج نے نوٹ کیا کہ قواعد کے مطابق عدالتیں کسی بھی وقت کسی بھی کیس کو لے سکتی ہیں۔ تاہم جسٹس من اللہ نے ایفیڈرین کوٹہ کیس میں سزا پانے والے حنیف عباسی کو فوری طور پر بطور ایس اے پی ایم کام کرنے سے روکنے کی درخواست مسترد کردی۔اس دوران انہوں نے کیس کی سماعت 17 مئی تک ملتوی کر دی۔