کراچی: سپریم کورٹ آف پاکستان نے جمعہ کے روز سیکریٹری دفاع کو ہدایت کی کہ وہ اپنے سامنے دفاعی تنصیبات کے لیے مختص زمین کے تجارتی استعمال کو ختم کرنے کا منصوبہ پیش کریں۔
سیکرٹری دفاع میاں محمد ہلال سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کنٹونمنٹ بورڈز سے متعلق کیس میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل بینچ کے سامنے پیش ہوئے۔
شروع ہی میں چیف جسٹس نے سیکرٹری سے استفسار کیا کہ دفاعی تنصیبات کے لیے الاٹ کی گئی زمین کا کیا ہو رہا ہے؟ بنچ کے برہم سیکرٹری نے موقف اختیار کیا کہ زمین دفاعی اور سٹریٹجک استعمال کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر عسکری ہاؤسنگ سوسائٹیز ایسی زمین پر بنائی جائیں تو دفاع اور حکمت عملی کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سٹریٹجک استعمال میں شادی ہال بھی شامل ہیں؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘ایئر فورس کے اڈوں میں کثیر المنزلہ عمارتیں کھڑی کی گئی ہیں، عدالت نے کنٹونمنٹ بورڈ کی دیوار سے اشتہار ہٹانے کا حکم دیا تھا اور اس کے پیچھے دیوار کی عمارتیں بنائی گئی تھیں’۔
جب سیکرٹری نے عرض کیا کہ کنٹونمنٹ بورڈز نے کچھ قواعد و ضوابط بنائے ہیں تو جسٹس قاضی محمد امین نے ریمارکس دیے کہ آپ کے قوانین اور پالیسیاں اس عدالت کے حکم کے تابع ہیں۔
سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ تمام مسلح افواج کے سربراہان نے تحریری طور پر بتا دیا ہے کہ آئندہ ایسی کوئی سرگرمیاں نہیں ہوں گی۔
بنچ نے مشاہدہ کیا کہ وہ اس طرح کی ماضی کی سرگرمیوں کو کالعدم کرنے کے کیس کی سماعت کر رہی ہے۔
بنچ نے سیکرٹری کو ہدایت کی کہ ایک پالیسی پیپر تیار کیا جائے کہ ایسی کمرشل عمارتوں کو کیسے ہٹایا جائے، اس کا طریقہ کار کیا ہوگا اور اس کا ٹائم فریم کیا ہوگا اور اس کاغذ پر تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کے دستخط ہوں۔
بنچ نے معاملے کی مزید سماعت 30 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے سیکرٹری کو ہدایت کی کہ وہ اس وقت تک اٹارنی جنرل سے ہدایات لیں اور اسلام آباد میں اگلی سماعت پر عدالت میں پیش ہوں۔