زبان اور انسان
انسان جب اس روئے زمین پر آیا تو اسے ایک دوسرے سے بات کرنے کے لیے لفظوں کی ضرورت پڑی۔ شروع میں تو انسان اشاروں سے کام کرتا تھا لیکن آہستہ آہستہ جب آواز کے استعمال سے واقف ہوا تو اسے سمجھ آئی کہ وہ مختلف آوازوں کے ذریعے بھی اپنی بات کہہ سکتا ہے۔ اس طرح اس نے اپنی زبان کی گرہ کھولی اور وہ رب شرحلی کی عملی تصویر بن گیا۔
یہ زمین جب شروع میں جنگل تھی تو پہلے پہلے انسان کو عام جانوروں کی طرح صرف پیٹ کے لیے تگ و دو کرنا پڑتی تھی۔ اور وہ جانوروں کا شکار کرتا تھا۔ پھر خدا نے اسے شعور دیا تو اسے علم کی دولت سے مالا مال کر دیا۔ انسان نے مشاہدے کی آنکھ کھولی اور اپنے آس پاس پر غور کرنا شروع کیا۔
انسان وہ مخلوق ہے جسے یہ علم تھا کہ اس کی عمر ختم ہوتی ہے، وہ جوان ہوتا ہے پھر بوڑھا ہوتا ہے لہذا اس نے سوچا کہ وہ ایسا کیا عمل اختیار کرے کہ اپنی زندگی میں اپنے مشاہدے کو دوسرے انسانوں کے ساتھ بانٹ سکے اور اپنے جانے کے بعد اس علم کو محفوظ کر کے جا سکے تا کہ اس کے بعد آنے والے اس کام کو مزید آگے بڑھا سکیں۔
لفظ کی اہمیت
اس مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے انسان نے لفظ ایجاد کیے اور زبان ترتیب دی۔ جیسے جیسے آبادی پھیلنے لگی انسان مختلف علاقوں میں آباد ہونے لگا۔ علاقوں اور فاصلوں کی وجہ سے زبانوں میں تنوع پیدا ہونے لگا۔ مختلف تہذیبیں بنیں اور مختلف زبانیں۔ انسانوں نے اپنا علم اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کے لیے کتابیں لکھی۔ پرانے انسان کی تحریریں تو ہمیں پتھروں پر لکھی ہوئی بھی ملتی ہیں ، جن کی آج ہمیں زبان بھی سمجھ نہیں آتی۔
آج انسان مختلف علاقوں میں آباد ہے اور تہذیبیں ترقی کر چکی ہیں اور ہر علاقے میں رہنے والے لوگ اپنی اپنی زبانیں بولتے ہیں اور اپنی زبان میں ہی ہر قوم ترقی کرتی چلی آ رہی ہے۔
فیصل ہاشمی کا شعر ہے
گر پڑے تو اٹھا کے چوم لیے
میں نے لفظوں کا حترام کیا
زبان کا انسان کے شعور سے ایسا کوئی تعلق نہیں ہوتا کہ اس کی بنیاد پر کسی قوم کو جاہل یا عاقل کہا جائے۔ زبان صرف اظہار کا ایک سلیقہ ہوا کرتی ہے جو ہر قوم نے اپنے علاقوں اور خطوں کی وجہ سے اپنایا ہوتا ہے۔
اردو زبان بھی پاک وہند کے خطے کی اپنی زبان ہے۔ لکھنؤ، دہلی اور کراچی اہل زبان لوگوں کے شہر سمجھے جاتے ہیں۔یہاں کے رہنے والوں کے اپنے اپنے لہجے ہیں۔ مختلف الفاظ ہیں جس سے ان علاقوں کے رہنے والوں کی پہچان کی جا سکتی ہے۔
اردو زبان مختلف زبانوں سے مل کر بنی ہے۔ اسی لیے پاک وہند کے تمام خطوں میں یہ بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
اردو کا پرانا نام ریختہ ہے۔ اسے ریختی بھی کہا جاتا رہا ہے۔ جیسے میر تقی میر کا شعر ہے۔۔
ریختہ کاہے کو تھا اس رتبہء اعلی میں میر
جو زمیں نکلی اسے تا آسماں میں لے گیا
غالب کا شعر ہے۔۔
ریختہ کے تمہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
اردو زبان بلاشبہ ایک ایسی زبان ہے جس میں دنیا کا ہر علم سما سکتا ہے۔ اس زبان کو بنانے والوں میں شاعروں کا کردار سب سے اہم ہے۔ میر تقی میر نے اردو کو صاف کیا اور اسے پرانی اردو سے زیادہ وسیع کیا۔ میر نے فارسی زبان کے لفظ اردو میں آسان کر کے رائج کیے اور ان لفظوں کو اپنے اشعار میں استعمال کر کے بھی دکھایا تا کہ پڑھنے والوں کے لیے آسان ہو جائے۔
آج اردو پاکستان کی قومی زبان ہے۔
انگریز جب اس خطے میں آیا تو اس نے یہاں انگریزی زبان کو رائج کیا اور تمام دفتری کام انگریزی زبان میں منتقل کر دئیے۔ انگریز کے آنے سے پہلے دربار کی زبان فارسی تھی۔
انگریز کے جانے کے بعد برصغیر کے لوگ سیاسی طور بھی اتنے مضبوط نہیں تھے کہ امورِ ریاست کو فوری طور پر اپنی زبان میں منتقل کر سکیں۔ لہذا شروع شروع مین انگریزی زبان ہی دفتری زبان کے طور پہ رائج رہی اور آئین بھی وہی رہا جو انگریز سرکار کا ترتیب دیا ہوا تھا۔،
پاکستان نے اپنا پہلا باقائدہ آئین 1973 میں ترتیب دیا۔
اس ملک کی انتظامیہ اور حکمران انہی خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے جو امیر تھے۔ امیر اور امراء تو پہلے ہی انگریز کے ساتھی تھے لہذا یہاں اردو کو اس طرح فروغ نہ مل سکا۔
اردو زبان کے لیے ہمشہ شاعروں اور ادیبوں نے ہی آواز بلند کی ہے کہ شاعر یا ادیب ہی کسی بھی معاشرے کا دکھ سمجھ سکتے ہوتے ہیں۔ حکمرانوں نے اس حوالے سے کبھی کوئی خاص کام نہیں کیا۔ اگرچہ اس حوالے سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں اردو کے حق میں فیصلے بھی ہو چکے ہیں لیکن اسے تا حال نافذ نہیں کیا جا سکا۔
کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام ابھی تک انگریزی تسلط سے ذہنی طور پر آزادی حاصل نہیں کر سکی ؟
اگر اس قوم نے ترقی کرنی ہے تو بلاشبہ انہیں اردو زبان کو ہی اپنی دفتری اور تعلیمی زبان بھی بنانا پڑے گا۔ کیونکہ بیس کروڑ آبادی کو انگریزی پہ منتقل کرنے میں ہماری جتنی نسلیں ضائع ہوں گی تب تک ویسے ہی کوئی قوم پم پر اپنا تسلط مکمل طور پر قائم کر چکی ہو گی۔ہمیں اردو بولنے اور سیکھنے والوں سے فائدہ اٹھا لینا چاہیے تا کہ بعد میں ہم اپنا قومی وقار بھی نہ کھو بیٹھیں۔
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں