کراچی کے علاقے کورنگی میں ایک فیکٹری میں آگ بھڑک اٹھی جس میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 16 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ شروع میں جب آگ لگی تو لوگوں نے اپنے تئیں اسے بجھانے کی کوشش کی۔ لوگوں کے مطابق یہ چھوٹی آگ تھی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ نار نمرود کی طرح بھڑک اٹھی۔ اس کیمیکل فیکٹری کے گراؤند فلور اور فرسٹ فلور آگ کی لپیٹ میں تھے جس میں کل 45 مزدور کام کر رہے تھے۔ آگ لگتے ہی لوگوں نے وہاں سے بھاگنا شروع کر دیا۔لیکن موت جو دروازے سے لگ کر کھڑی تھی اس نے آگ میں جھلستے ہوئے مزدوروں کو اپنی چادر میں لے لیا۔
پیٹ کی آگ بجھانے گئے مزدوروں کی لاشوں کی شناخت تا حال ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ اس سانحے میں دو بھائیوں کے جلنے کی اطلاع بھی ملی ہے۔ انکی والدہ کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے بچوں کو پیسے کمانے بھیجا تھا آگ میں جلنے کے لیے نہیں۔
سولہ مزدوروں کو بچانے کے لیے پندرہ فائر برگیڈ کام کرتے رہے اور کچھ دیر بعد آگ پر قابو پا لیا گیا۔ فائر برگیڈ کی پہلی گاڑی 10 بج کر 10 منٹ پر روانہ کی گئی۔اور زخمی لوگوں کو اسی لمحے جناح ہسپتال کراچی میں منتقل کیا گیا۔ لواحقین کا کہنا ہے کہ ڈی این اے کے ذریعے جلد از جلد انکے پیاروں کی شناخت کی جائے تا کہ وہ اپنے پیاروں کی تدفین کر سکیں۔
عمارت چاروں طرف سے بند تھی اور لوگوں کو اندر سے نکالنے کی کوئی آسان صورت نہیں تھی اس لیے فائر برگیڈ نے ریسکیو کا کام کھڑکیاں توڑ کر شروع کیا۔ اور لوگوں کو اسی ذریعے سے باہر نکالا گیا۔
دھوئیں کے بادلوں سے ہمارا رشتہ دن بدن پرانا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے واقعات اب تو معمول بن چکے ہیں، اس لیے ہمیں یہ دنیا کوئی عجائب خانہ بھی نہیں لگتی اور ہماری سماعتوں پر اس طرح کے دل دہلا دینے والے واقعات کوئی خاص گراں بھی نہیں گزرتے۔ لیکن ان سارے واقعات کے پیچھے لوگوں کی اپنی نا اہلی ہوتی ہے۔ کسی شاعر نے اس بات کی خوب ترجمانی کی ہے
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ہمارے ملک میں مون سون کے مہینے میں ہر سال سیلاب آتا ہے۔ دریا ہر سال بند توڑتا ہے اور کسی دھاڑتے ہوئے شیر کی طرح ہمارے بازاروں اور گلی محلوں میں گھس آتا ہے۔ لوگوں کے مال مویشی، لوگوں کی زندگی کی جمع پونجی بہا لے جاتا ہے لیکن حکومتی سطح پر اس کے لیے کوئی پیشگی اقدامات نہیں کئے جاتے۔ آئے روز کہیں نہ کہیں آگ لگتی ہے لیکن احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی جاتیں۔ بطور قوم افسردہ ہونے سے یا کسی واقعے کی مذمت کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جیسا کہ اس واقعے پر بھی وزیراعلی سندھ نے افسوس کا اظہار تو کیا ہے اور مرنے والوں کے لواحقین کی مالی مدد کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ ایسے واقعات سے بچنے کے لیے کیا اقدامات کیے جاتے ہیں۔