یہ کہا جائے کہ عمران خان کی حکومت ختم ہونے کا فائدہ جس شخص نے سب سے زیادہ اٹھایا یا جس پر قدرت سب سے زیادہ مہربان رہی وہ محسن نقوی ہیں -جو پہلے نگران وزیراعلیٰ بنے اور اب وفاقی وزیر کے عہدے پر فائز ہوگئے –
وزیراعظم شہبازشریف نے جن 19 رکنی وفاقی کابینہ کے اراکین کو قلمدان سونپ دیئے ہیں ان میں اس مرتبہ تین وفاقی وزراء ایسے بھی ہیں جو براہ راست منتخب ہو کر تو نہیں آئے لیکن انہیں وزارت دید ی گئی ہے تاہم وزیراعظم کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ کسی بھی غیر منتخب شخصیت کو چھ ماہ کیلئے وفاقی وزیر بنا سکتے ہیں ۔ آئین پاکستان کی شق 91 کی ذیلی کلاز 9 کے تحت وزیراعظم پاکستان کے پاس اس بات کا اختیار ہے کہ وہ کسی غیرمنتخب شخصیت کو بھی چھ ماہ تک وفاقی وزیر کا عہدہ دے سکتے ہیں۔تاہم چھ ماہ کے بعد اگر کسی شخصیت کو وفاقی وزیر کا عہدہ دینا ہے تو اُس کے لیے منتخب نمائندہ ہونا ضروری ہے۔ ماضی میں بھی وزیراعظم اس اختیار کا استعمال کر چکے ہیں۔
محمد اورنگزیب کو آئین کی شق 91(9) کے تحت وفاقی وزیر برائے خزانہ بنایا گیا ہے۔محمد اورنگزیب پاکستان کے معروف اور ایک بڑے نجی بینک میں صدر اور چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر فائز تھے، جس سے اب وہ مستعفی ہو چکے ہیں۔محمد اورنگزیب پاکستان بزنس کونسل کے ڈائریکٹر بھی رہے ہیں۔ انہوں نے نجی بینک کے عہدے کے ساتھ ہالینڈ کی قومیت بھی چھوڑی ہے۔
جھنگ سے تعلق رکھنے والے سید محسن نقوی کو وزیر داخلہ کا قلمدان سونپا گیا ہے۔ محسن نقوی نے امریکہ سے صحافت کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے۔ وہ جنوری 2023 میں پنجاب کے نگراں وزیرِ اعلیٰ بنے ۔ محسن نقوی چھ فروری 2024کو تین سال کے لیے پی سی بی کے بلامقابلہ چیئرمین بھی پہلے ہی منتخب ہو چکے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کی 19 رکنی کابینہ میں تیسرا نام احد چیمہ کا ہے جنہوں نے آرٹیکل 91(9) کے تحت وفاقی وزیر برائے معاشی امور کا حلف اٹھایا ہے۔احد چیمہ پنجاب میں شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کے دور میں ان کی ٹیم کا اہم حصہ بھی رہ چکے ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں احمد چیمہ وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بھی رہ چکے ہیں۔
اس سے قبل ماضی میں بھی وزیراعظم اس اختیار کا استعمال کرتے ہوئے غیر منتخب شخصیات کو وفاقی وزیر نامزد کرتے رہے ہیں عبدالحفیظ شیخ کو پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں وزیر خزانہ کا قلمدان دیا گیا تھا جبکہ شوکت ترین بھی تحریک انصاف کے دور میں اسی قانون کے تحت وزیر خزانہ رہے تاہم اوہ اس سے قبل پیپلز پارٹی کے دور میں بھی وزیر خزانہ رہ چکے تھے ۔تاہم پھر ان کو آئینی تقاضا پورا کرنے کے لیے قومی اسمبلی یا سینٹ مین فتھ دلوائی جاتی ہے اس کے بعد یہ مستقم حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں –