پاکستان کے نامور صحافی اپنے وی لاگ کی وجہ سے بڑی مشکل میں پھنس گئے -انھوں نے ملک میں ہونے والے 8 فروری کے حوالے سے بڑے سنگین الزامات عائید کردیے تھے اور کہا تھا کہ اداروں کے حکم کے بعد رات کے وقت نتائج تبدیل کرکے ہارنے والے امیدواروں کو جتوایا گیا -اس کے علاوہ انھوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر بھی ریمارکس دیے تھے -اس کے بعد ان کے خلاف قانونی چارہ گوئی کا فیصلہ کیا گیا -جوڈیشل مجسٹریٹ محمد شبیر کی عدالت نے وی لاگر اسد طور کو 5 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کردیا۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے وی لاگر اسد طور کو اسلام آباد کچہری میں پیش کردیا، اور جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی، جس پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تضحیک کے کیس میں عدالت نے وی لاگر اسد طور کے جسمانی ریمانڈ کی ایف آئی اے کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔بعد ازاں عدالت نے اسد طور کا 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔البتہ اپنے مقدمات کی سماعت کے لیے عدالت نے اسد طور کو ایک وکیل سے ایک گھنٹے ملاقات کی اجازت دے دی۔
دوسری جانب اسد طور پر ایف آئی اے کے مقدمے کی ایف آئی آر سامنے آگئی، جس میں اسد طور پر سرکاری افسران کیخلاف منفی اور جھوٹا بیانیہ بنانے کے لیے مہم چلانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں اسد طور پر ریاستی اداروں اور افسران کیخلاف لوگوں کو تشدد پر اکسانے کا الزام ہے۔ایف آئی آر کے مطابق اسد طور نے ٹوئٹر اور یوٹیوب کے ذریعے بدنیتی پر مبنی مہم چلائی۔ اسد طور نے سوشل میڈیا کے ذریعے ریاست مخالف سرگرمیوں کو ہوا دی۔ اسد طور کے خلاف پیکا آرڈیننس 2016 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔دوران سماعت وی لاگر اسدطور نے کہا کہ میں صحافی ہوں اپنا موبائل فون نہیں دے سکتا۔ میں ایف آئی اے کے سامنے دو بار پیش ہوا ۔ وکیل صفائی نے بتایا کہ 24 فروری کو بائے ہینڈ نوٹس موصول کیا۔ ہم کال اپ نوٹس کے خلاف ہائیکورٹ گئے ۔ 26 فروری کو ہم 4:30 پر ہائیکورٹ کا آرڈر لے کر ایف آئی اے آفس پہنچے ۔ ہم نے ایف آئی آر اور جو الزامات ہیں ان کا پوچھا ۔
واضح رہے کہ سرکاری افسران کیخلاف منفی مہم چلانے پر جے آئی ٹی بنائی گئی تھی، جس کے بعد ایف آئی اے نے اسد طور کو طلبی کا نوٹس جاری کیا تھا۔ اس سے قبل چیف جسٹس پاکستان کیخلاف مہم چلانے پر بنائی گئی پہلی جے آئی ٹی نے بھی اسد طور کو نوٹس جاری کیا تھا۔مگر انھوں نے جو وی لاگ میں زبان استعمال کی ہے لگتا یہی ہے کہ یہ بیانات ان کے لیے وبال جان بنیں گے –