سپریم کورٹ نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اب دنیا میں مزید جگ ہنسائی نہیں کروانی کیونکہ نومبر میں ہونے والے انتخابات پہلے ہی فروری تک آگے بڑھ چکے ہیں اور اس سے پہلے بھی ایک مرتبہ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا بندیال کے حکم کے باوجود پاکستان کے 2 صوبوں میں 14 مئی کوالیکشن نہیں ہوئے تھے جو پاکستان کی تاریخ کا منفرد واقعہ تھا -سپریم کورٹ نے حلقہ بندیوں کے خلاف درخواستوں پر سماعت سے انکار کرتے ہوئے تحریری فیصلہ جاری کر دیا ۔ فیصلہ سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا جسے سپریم کورٹ نے آج جاری کیا ہے۔ جج نے یہ فیصلہ بلوچستان کے دو اضلاع ژوب اور شیرانی میں حلقہ بندیوں کے خلاف درخواست پر دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ اگر اس وقت حلقہ بندی کا معاملہ دیکھا تو مقدمے بازی کا سیلاب امڈ آئے گا جس سے انتخابی شیڈول متاثر ہوگا، سیاسی کارکنان اور ووٹرز کے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے اور ہم انتخابات میں تاخیر نہیں چاہتے۔فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے کہ آئین میں ایک جج کا کردار جمہوریت اور آئین کے محافظ کا ہے، آزادانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد سے ہی جمہوریت برقرار رہتی ہے، انتخابات کے بغیر حکومت کو جمہوری حکومت نہیں کہا جاسکتا، بروقت آزادانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد درحقیقت آئینی جمہوریت ہے، انتخابات سے عوامی رائے کا احترام ہوتا ہے قیادت عوام کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جب انتخابی شیڈول جاری ہوجائے تو تمام مقدمہ بازی کو فوری حل ہونا ضروری ہے، انتخابات میں تاخیر یا انتخابات سے متعلق مقدمہ بازی سے انتخابی عمل اور جمہوری نظام پر عوامی اعتماد متاثر ہوتا ہے، ایسا ہونے سے سیاسی ماحول عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے ۔جج منصور علی شاہ نے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ انتخابات کے انعقاد کیلئے گھڑی کی سوئی آگے بڑھ رہی ہے، اگر اس وقت حلقہ بندی کا معاملہ دیکھا تو لاکھوں سیاسی کارکنان اور ووٹرز کے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے، عام انتخابات کے انعقاد کو حلقہ بندیوں کے خلاف اعتراضات پر ترجیح دے رہے ہیں۔مگر الیکشن ملتوی کروانے کے خواہش مند ابھی اور بہت سی درخواستیں سپریم کورٹ لائیں گے اور سپریم کورٹ کے ججز کا مزید امتحان لیں گے مگر اس بار ان کی دال نہیں گلنے والی –