نواز شریف کی جب سے وطن واپسی ہوئی ہے لاہور کے جلسے کے بعد ان میں دوسرا جلسہ کرنے کی تو ہمت نہیں ہوئی البتہ ان کو یہ یقین ہے کہ عوام چاہے جتنا مرضی عمران کا ساتھ دے ایلکشن ان کی جماعت ہی جیتے گی اس لیے وہ جاتی عمرہ میں سکون سے بیٹھ گئے ہیں اور وہاں ہی نون لیگ کی ٹکٹوں کے فیصلے کررہے ہیں مگر اس پر بہت سے صحافی جل بھن رہے ہیں کیونکہ اب ان لفافیوں کو میاں صاحب منہ ہی نہیں لگا رہے اسی لیے پہلے سہیل وڑائچ اور اب سلیم صافی کھل کر نواز شریف پر بولنے لگے ہیں -ان کا گلہ تھا کہ اب کی بار اقتدار میں آنے سے قبل ہی نواز شریف اور مریم نواز کا رویہ بادشاہوں والا ہوگیاہے اور وہ بادشاہوں کی طرح رائے ونڈ کے محل میں بیٹھ گئے اور پارٹی رہنماؤں کو بھی رعایا سمجھ کر باری باری وہاں بلارہے ہیں ۔ میاں صاحب نہ بھرپور سیاست کررہے ہیں اور نہ ہی ابھی تک سیاسی بیانیہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
“جیو ” میں شائع ہونیوالے اپنے بلاگ “بادشاہانہ سیاست” میں سلیم صافی نے لکھا کہ موجودہ سیاسی رہنماؤں میں شاید نواز شریف سب سے زیادہ تجربہ کار سیاستدان ہیں ۔ مگر حالت یہ ہے کہ 3 مرتبہ وزیراعظم بنے اور تینوں مرتبہ نکالے گئے ۔ ایک لمبے عرصے تک اپوزیشن کی سیاست بھی کی اور 2 مرتبہ جلاوطنی بھی کاٹی ۔ انھوں نے مریم کے بارے میں بھی قلم کشائی کی ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور مریم نوازبہاد راور ضدی بھی ہیں ، بعض مواقع پر ڈٹ بھی جاتے ہیں اور بڑے وقار کے ساتھ جیل بھی کاٹ لیتے ہیں مگر اس بار ایسا نظر نہیں آرہا ۔ وطن واپسی پر نواز شریف کو چاہیے تھا کہ وہ پارٹی تنظیم پر توجہ دیتے اور ملک بھر میں جلسے اور ریلیاں کرکے عوام اور پارٹی کو متحرک کرتے لیکن وطن واپسی کے بعد میاں صاحب بادشاہوں کی طرح رائے ونڈ کے محل میں بیٹھ گئے اور پارٹی رہنماؤں کو رعایا سمجھ کر باری باری وہاں بلارہے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کے کیسز بھی ان کیلئے کسی اور نے ختم کرنے ہیں ۔ سیاسی بیانیہ بھی ان کیلئے کسی اور نے تشکیل دینا ہے اور پی ٹی آئی کوبھی کسی اور نے سنبھالنا ہے ۔میاں صاحب سمجھتے ہیں کہ کسی اور نے ان کیلئے یہ سب کچھ کرکے اقتدار ان کے جھولی میں ڈالنا ہے ۔
سلیم صافی نے اپنے بلاگ میں مزید لکھا کہ پہلے مسلم لیگی ووٹر یہ سمجھ رہا تھا کہ میاں صاحب واپس آئیں گے تو سیاسی میدان سجائیں گے ، مگر وہ تو موسم انجوائے کرنے کیلئے مری چلے جاتے ہیں لیکن پختونخوا کا دورہ نہیں کرتے ۔ میاں صاحب ان دنوں ٹکٹوں کی تقسیم میں لگےہوئے ہیں لیکن اس کیلئے بھی امیدواروں کو لاہور بلارہے ہیں ۔ میاں صاحب کم ازکم یہ تو کرسکتے تھے کہ پختونخوا کی ٹکٹوں کی تقسیم کیلئے سب کو اپنے دولت کدے پر حاضر کروانے کے بجائے خود پشاور جاکر کسی فائیو سٹار ہوٹل میں بیٹھ کر یہ کام کرتے ۔ یہ کام وہ بلوچستان اور سندھ کے حوالے سے بھی کرتے تو امیدواروں کو یہ تاثر نہ ملتا کہ وہ غلام ہیں ۔ میاں صاحب وزیراعظم بننا چاہتے ہیں لیکن انکی سوچ پنجاب سے شروع ہوتی اور پنجاب پر ختم ہوتی ہے ۔
بلاگ کے آخر میں سلیم صافی نے لکھا کہ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آج تک موثر بیانیہ نہ دے پانے کے سبب عوام کے پاس جانے کیلئے ان کے پاس کچھ نہیں ۔ ان کی پارٹی کی میڈیا پالیسی بھی نہایت ناکام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کو پختونخوا اور اب پنجاب میں نیا جنم مل رہا ہے اور اگر یہی بادشاہانہ رویہ برقراررہا تو انتخابی مہم گرم ہونے پر وہ عوام کے سامنے جانے کے قابل نہیں رہیں گے ۔ سلیم صافی کا کہنا تھا کہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ 4خوشامدیوں نے اپنے نرغے میں لے لیا ہےجو ماضی میں بھی انہیں ڈبونے کا باعث بنے تھے ۔ میاں صاحب ان 4کے ٹولے کے قبضے میں رہے اور ان کا بادشاہانہ رویہ برقرار رہا تو ان کاچوتھی بار وزیراعظم کا خواب مشکل سے ہی شرمندہ تعبیر ہوگا۔اب سب کو یقین ہوتا جارہا ہے کہ اس بار الیکشن میں اس 13 رکنی اتحاد کا مقابلہ عمران خان اور پی ٹی آئی سے نہیں بلکہ عوام سے ہوگا –