سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس اور ان کے بعد آنے والے چیف جسٹس میں اختلافات اب میڈیا پر بھی آنے لگے ہیں کل جسٹس اعجاز الاحسن نے قاضی فائز عیسیٰ کے نام خط لکھ کر کچھ سوالات کیے تھے ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی اجلاس کے منٹس میری منظوری کے بغیر ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے گئے، میرا یہ نوٹ بھی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا جائے، خط میں کہا گیا کہ انتظار کرنے کے باوجود 6:30 بجے کال کرنے پر بتایا گیا کہ رجسٹرار صاحبہ جا چکی ہیں۔
خط میں انہوں نے کہا کہ چوتھی اور پانچویں کمیٹی اجلاس کے منٹس نہ تو بھجوائے گئے نہ دستخط لئے گئے،ان منٹس کو بغیر میری منظوری سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کر دیا گیا۔ان باتوں کے بعد آج چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے جسٹس اعجازالاحسن کو جوابی خط لکھ دیا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ میرے دروازے اپنے تمام ساتھیوں کیلئے ہمیشہ کھلے ہیں۔ میں انٹر کام اور فون پر بھی ہمیشہ دستیاب ہوں۔آپ نے اپنے تحفظات کیلئے نہ مجھے کال کی نہ ملاقات کیلئے آئے۔آپ کا خط ملنے پر فوری آپ کے انٹرکام پر رابطہ کی کوشش کی لیکن جواب نہ ملا۔ میں نے اپنے اسٹاف کو آپ کے ساتھ رابطے کا کہا تو اسٹاف نے بتایا کہ آپ جمعہ دوپہر کو لاہور چلے گئے ہیں۔ ہمیں 6 دن کام کرنے کی تنخواہ ملتی ہے نہ کہ ساڑھے چار دن کی۔جج کی پہلی ذمہ داری عدالتی فرائض کی انجام دہی ہے۔ آج کی اس پیش رفت کے بعد یہی لگ رہا ہے کہ کہ ایک بار پھر سپریم کورٹ کے ججز کے درمیان محاذ ارائی بڑھنے جارہی ہے اور عمر عطا بندیال کی طرح اب قاضی فائز عیسیٰ کا امتحان بھی شروع ہونے والا ہے -خدا کرے کہ ہمارا یہ خیال غلط ہو کیونکہ عدلیہ دنیا میں سب سے زیادہ قابل قدر ادارہ مانا اور تسلیم کیا جاتا ہے –