بھارتی وزیراعظم کشمیری مسلمانوں کی زمینیں ہتھیانے اور یہاں ہندوؤں کوآباد کروانے کے گھناؤنے منصوبے پر عمل درآمد کے 2 سال بعد مقبوضہ کشمیر کے دورے پر آئے تو پوری وادی گویا سراپا احتجاج بن گئی
کشمیر میڈیا سروس نے بتایا کہ کل جماعتی حریت کانفرنس کی کال پر مقبوضہ جموں کشمیر میں مکمل ہڑتال کی گئی۔ آزاد جموں و کشمیر میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے، جب کہ کشمیریوں اور ان کے اتحادیوں نے “فاشسٹ ہندوستانی حکمران” کے دورے کے خلاف برطانیہ میں مظاہرے کئے۔
ہندوستانی قابض حکام نے مودی کے دورے سے قبل حفاظتی اقدامات کے نام پر پورے مقبوضہ کشمیر میں خاص طور پر جموں کے علاقے میں فوج اور پولیس کی نفری تعینات کی۔ پولیس نے سخت حفاظتی اقدامات کے تحت سری نگر کے مختلف علاقوں سے متعدد بائک ضبط کیں۔
مودی نے 5 اگست 2019 کے بعد کشمیر کا اپنا پہلا دورہ کیا جب ہندوستان نے لاکھوں کشمیریوں کو فوجی لاک ڈاؤن میں ڈالنے کے بعد اس خطے کو بھارتی قوم کو دینے کی مزموم کوشش کی تھی۔ نریندرا مودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے بھارتی سپریم کورٹ کی ملی بھگت سے آئینی شقوں کو بھی منسوخ کر دیا ۔
یوم سیاہ منانے کا مقصد بھی مسلسل بھارتی قبضے کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروانا تھا اور ایک ایسے وقت میں جب کشمیر کی آزادی کی جدوجہد عروج پر پہنچ چکی تھی جب کہ کی خون سے بھیگی گلیوں میں عوام کی ناراضگی مسلسل گونج رہی تھی۔
آزاد جموں و کشمیر کے شہر میپرور میں یوم سیاہ کی ایک بڑی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مظاہرین کا کہنا تھا کہ بھارت نے گزشتہ دو سال اور آٹھ ماہ سے زائد عرصے سے مکمل مواصلاتی اور معلوماتی ناکہ بندی کے ذریعے مقبوضہ ریاست کو زمین کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے۔