اتوار کو ایک اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ امریکہ اس بات پر قائل ہوگیا ہے کہ میانمار کی فوج کی طرف سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہے۔فوجی کریک ڈاؤن کے بعد 2017 سے اب تک لاکھوں کی تعداد میں افراد میانمار سےجان سے مارے جانے کے خوف سے ہجرت کرچکے ہیں ۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن پیر کو واشنگٹن کے ہولوکاسٹ میوزیم میں اس کریک ڈاؤن کو نسل کشی قرار دینے کے فیصلے کا باضابطہ اعلان کرنے والے ہیں ۔ بلنکن نے گزشتہ سال دسمبر میں ملائیشیا کے دورے کے دوران کہا تھا کہ امریکہ “بہت باریک بینی سے” دیکھ رہا ہے کہ آیا روہنگیا کے ساتھ سلوک “نسل کشی” کا حصہ بن سکتا ہے۔
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے 2018 میں ایک رپورٹ جاری کی جس میں مغربی راکھین ریاست میں روہنگیا کے خلاف تفصیلی تشدد کو “انتہائی، بڑے پیمانے پر اور بظاہر آبادی کو دہشت زدہ کرنے اور روہنگیا باشندوں کو باہر نکالنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ، 2017 میں برما اور بنگلہ دیش میں روہنگیا کمیونٹی کے ارکان سے سننے والی دردناک کہانیاں ،تشدد اور انسانیت سوز مظالم کبھی بھلائی نہیں جاسکتیں ،” اوریگون سے امریکی سینیٹر جیف مرکلے نے اپنےٹویٹ میں برملا اظہار کیا ۔