یہ ہمارے معاشرے کا چلن بن چکا ہے کہ زیادہ تر قابل لوگوں کو انکی زندگی میں کوئی اعزاز نہیں دیا جاتا۔
بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کو جیتے جی عزت مل جاتی ہے۔لیکن ایسا ہمارے معاشرے میں اب نہ ہونے کے برابر ہے۔
اچھے معاشروں میں یہ اقدار رائج نہیں ہوتیں۔ وہاں استاد کی عزت کی جاتی ہے۔
فنکاروں، شاعروں اور ادیبوں کو سراہا جاتا ہے۔ ہر طبقے کو اس کے ہنر کی عزت ملتی ہے۔
لیکن ہمارے ہاں تیسرے درجے کا معاشرہ بن چکا ہے۔
پھر اس ٹوٹتے بنتے معاشرے کو دہشتگردی نے آ لیا اور یہ مزید بکھر گیا۔
دہشتگردوں نے چن چن کر اس قوم کے غیور بیٹوں کی چھاتیاں چھلنی کر دیں۔
کئی قابل لوگ مارے گئے اور جو بچ گئے ان کو انکے پیاروں کے غم نے کھا لیا۔
بہرحال کہیں نہ کہیں اب بھی کسی کو جب عزت ملتی ہے تو اس امید کی کرن دکھائی دیتی ہے کہ اب بھی شاید علم و عمل کا بجھا ہوا سورج دوبارہ چمک سکتا ہے۔ شاید اب بھی مظلوموں کو قومی و ملکی سطح پہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے۔
گورنر ہاؤس کوئٹہ میں 21 اپریل کو شہید ہونے والے میرایمل خان کاسی کی اعزازی پی ایچ ڈی ڈگری ان کے والد ارباب ظاہر کاسی نے وصول کی۔
اس موقع پر گورنر بلوچستان سید ظہور آغا نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں شہید اور نوجوانوں پر قوم کو فخر ہے۔
ایمل کاسی جیسے نوجوان جو ابھی صوبے کی خدمت کیلئے تیار ہورہے تھے اور اپنی زندگی کے عروج پر تھے ان کی شہادت سے صوبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے ڈگری دینا ایمل کاسی کا نعم البدل نہیں ہے لیکن یہ اقدام اس بات کی دلیل ہے کہ ہم اپنے شہداء کی نا صرف قدر کرتے ہیں بلکہ دہشتگردی کے خلاف لڑتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت کرتے رہیں گے۔
واضح رہے کہ ایمل خان کاسی مینجمنٹ سائنسز میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔
انہوں نے 2016 میں پروگرام میں داخلہ لیا تھا۔
ایمل نے بی بی اے اور ایم بی اے کی ڈگری بھی امتیازی نمبروں سے حاصل کی تھی۔
شہادت سے کچھ عرصہ قبل ایک انٹرنیشنل جرنل میں ان کا تحقیقی مقالہ بھی شائع ہوا تھا اورایک تحقیقی مقالہ ابھی شائع ہونے کے مرحلے میں تھا۔