روس کے شہر پرم میں ایک یونیورسٹی میں طالب علم کی فائرنگ کی سے کم از کم آٹھ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔یونیورسٹی کی ترجمان نٹالیہ پیچیشیوا نے بتایا کہ ماسکو سے 1300 کلومیٹر مشرق میں پرم اسٹیٹ یونیورسٹی میں فائرنگ کرکے خوف و ہراس پھیلانے والے کو بھی ختم کردیا گیا ۔اور جائے وقوعہ کی فوٹیج میں زمین پر اس کا شکار جسم بھی دکھایا گیا۔تاکہ یہ فوٹج خوفزدہ خاندانوں کے کیے تسلی کا باعث بن سکے
قبل ازیں جائے وقوعہ سے حاصل ہونے والی میڈیا فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ طالب علم عمارت سے بچنے کے لیے پہلی منزل کی کھڑکیوں سے چھلانگیں لگارہے ہیں اس دردناک منظر نے اور بھی خوف کی فضا پیدا کی کیونکہ اتنی بلندی سے گرنا جان کے لیے خطرہ بن سکتا تھا ۔
ترجمان یونیورسٹی نے بتایا کہ طالب علموں نے کرسیوں سے باہر رکاوٹیں کھڑی کیں تاکہ شوٹر کو ان کے کلاس روم میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔حملہ آور کی شناخت یونیورسٹی میں ایک طالب علم کے طور پر کی گئی ۔
طالب علم سیمون کریاکین نے بتایا ، “کلاس روم میں تقریبا 60 60 بچے تھے۔ ہم نے دروازہ بند کر دیا اور اسے کرسیوں سے دروازہ بلاک کیا اور دوسری جانب سے باہر کود کود کر جانیں بچائیں ۔”اس 18 سالہ طالب علم نے اس حملے سے قبل سوشل میڈیا پر اپنی ایک رائفل ، ہیلمٹ اور گولہ بارود کے ساتھ تصویر پوسٹ کی تھی۔
“میں نے ایک طویل عرصے سے اس کے بارے میں سوچا ہے ، کئی سال ہوچکے ہیں اور میں نے محسوس کیا کہ وہ وقت آگیا ہے جس کا میں نے خواب دیکھا تھا۔”انہوں نے اشارہ کیا کہ ان کے اقدامات کا سیاست یا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ نفرت سے متاثر ہیں۔
روس میں شہری آتشیں اسلحہ کی ملکیت پر سخت پابندیاں ہیں ، لیکن بندوقوں کی کچھ اقسام شکار ، سیلف ڈیفنس یا کھیل کے لیے دستیاب ہیں ۔اس سال کے شروع میںبھی ایک نوعمر بندوق بردار نے مئی میں کازان شہر میں ایک اسکول پر فائرنگ کی تھی جس میں نو افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوئے تھے۔
اسی طرح 2018 میں بھی کریمیا کے ایک کالج میں ایک طالب علم نے خود پر بندوق چلانےسے پہلے 20 افراد کو ہلاک کر دیا۔روس نے کازان شوٹنگ کے بعد آتشیں اسلحہ خریدنے کی قانونی عمر 18 سے بڑھا کر 21 کر دی ، لیکن نیا قانون ابھی تک نافذ نہیں ہوا۔ جس کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس لڑکے نے اپنے ساتھیوں کے خون سے ہاتھ رنگ لیے