صوبائی وزیر سعید غنی اور سردار شاہ نے کراچی میں کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ ٹی وی چینلز پر اسکول فرنيچرکی کچھ خبريں چلتی رہیں، جس میں سرکاری اسکولوں میں ڈیسکوں کی خریدی میں کرپشن ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔
مئی 2018ء ميں ايک سينٹرل پروکيورمنٹ کميٹی بنائی گئی تھی جس کے سربراہ نثار صديقی تھے۔
کميٹی کے پاس جو بڈز آئی تھيں اسے کميٹی نے رد کرديا تھا، بڈز ساڑھے5 سے 6 ہزار کی آئی تھيں اسی لیے کمیٹی نے سمجھا یہ کوالٹی صحیح نہیں ہوگی لہذا ٹینڈر نہیں ہوا۔
کميٹی سربراہ نثار صديقی کرونا کے باعث انتقال کرگئے اور انکی جگہ آئی بی اے سکھر کےنئے سربراہ کو پروکيورمنٹ کميٹی کے سربراہ کے طور پر تعینات کر دیا گیا۔
منسٹر يا سيکريٹری کا معاملے ميں کوئی براہ راست کردار نہيں تھا۔
29 جون 2021 ڈی جی نيب کو دوبارہ خط لکھا گيا تھا۔
سعید غنی نے کہا کہ پروکيورمنٹ کميٹی نے شيشم يا دوسری لکڑی کی ڈيسک خريدنے کا فيصلہ کيا تھاجبکہ سستے دام ملنے والے ڈیسک نہیں لیے تھے اور اسکی اسٹیٹمنٹ کاسٹ 12 سے 13 ہزار لگائی گئی تھی۔
سابق صوبائی وزیرسندھ سعید غنی نے کہا تھا کہ نثار صديقی کی نيت پر ہميں کوئی شبہ نہيں ہے۔
2019 دوبارہ ٹينڈر ہوئے، اس وقت تعليم کا محکمہ وزيرعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے پاس تھا۔
محکمہ تعلیم سندھ ایک ڈیسک 29 ہزار میں خریدے گا۔
اپوزيشن ليڈر صاحب کسی بازار ميں چلے گئے اورڈيسک لے آئے۔
صوبائی وزیر نے کہا يہ اپنے گھر کيلئے تو ايسی خريداری کرسکتے ہيں مگر محکمہ تعليم کے فنڈزسےغريب آباد سے خريداری نہيں کرسکتے۔
ڈیسکوں کی خریداری سيپرارولز کے مطابق کی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ کسی بھی بڈرز کو کوئی ايڈوانس ادائيگی نہيں کی جائيگی، ٹی وی پر آيا کہ سرکاری خزانے کو 3 ارب کا ٹيکا لگ رہا ہے۔ پروکيورمنٹ جو رقم بتاتے ہيں ان ميں خريداری اور ديگر اخراجات بھی ہوتےہيں۔ 3.6 ارب روپےميں سے تقريبا1ارب روپےٹيکس اورٹرانسپورٹيشن ميں خرچ ہوئے۔
صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ میں چاہتا ہوں کسی دن پروکيورمنٹ کميٹی کے ممبران کو بھی بٹھائيں، دو مرتبہ ٹينڈرز منسوخ ہوئے ہيں۔
عدالتيں کہتی ہيں کہ سرکاری اسکول ميں فرنيچر نہيں ہے۔
خريداری کےعمل کو بائی پاس کرکے فرنيچر نہيں کرسکتے، کسی کے پاس ثبوت ہے کہ من پسند ٹھيکيدار کو ٹھيکہ ديا تو سزا ملنی چاہيے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تک ایک بینچ نہیں آئی اور کہہ دیا گیا کہ کاٹھ کباڑ سے فرنيچر خريدا گيا۔
پرانی تصاوير مختلف ٹی وی چينلز پر چلائی جاتی رہیں۔
مجھے لگتا ہے سندھ حکومت کیخلاف باقاعدہ پلانٹڈ کمپين چلائی جارہی ہے۔ معاملے کی شفاف تحقيقات کی جائيں، پہلے لوکل فرنيچر و ديگر چيزیں خريدی جاتی تھيں۔
سعید غنی کا کہنا تھا کہ سردارشاہ کے دور ميں جو ٹينڈرہوا وہ منسوخ ہو چکا تھا۔
اس کےبعد معاملہ عدالت ميں چلا گيا اور اسٹےآگيا۔
ٹرانسپرنسی انٹرنيشنل کی رپورٹ میں بھی کوئی اعتراض سامنے نہيں آيا۔ اخلاقی طور پر ٹرانسپرنسی انٹرنيشنل کو ايسی بات نہيں کرنی چاہيئے۔
حلیم عادل شیخ ساڑھے 5 ہزار کی ڈیسک اسمبلی لے کر آئے۔
دوسری جانب وزير تعليم سندھ سردار شاہ نے کہا کہ مجھے اس پورے معاملے کا علم نہيں، دستاويزات ہمارے سامنے ہيں، بيٹھ کر ديکھيں گے۔ پروکيورمنٹ کميٹی سے بھی مليں گے۔
پی ٹی آئی رہنما حلیم عادل شیخ کا کہنا ہے کہ ہم کہتے ہیں سارا ٹبرچور ہے وہ ثابت ہوگیا، نیب کا کام اب شروع ہوا ہے، اس پر کارروائی ہونی چاہیے۔ آج اس کرپشن پر نیب کو خط لکھ رہا ہوں، پوری صوبائی حکومت ملی ہوئی ہے ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہیں۔