اس وقت سوشل میڈیا پر جس موضوع پر سب سے زیادہ بات کی جارہی ہے وہ کراچی سے پنجاب آنے والی خاتون ہے جس پر پہلے ایک پولیس والے نے تشدد کیا جس کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی اور پھر یہ خبر آئی کہ اس خاتون نے ٹرین سے گر کر اپنی جان دے دی ہے یہ خبر اتے ہی ملک میں کہرام مچ گیا اور اب اطلاعات آرہی ہیں کہ اس پولیس اہل کار کو گرفتار کرلیا گیا ہے -گرفتاری کے بعد پولیس والے سے تفتیش کی جارہی ہے کہ آخر اس دن ترین میں اس نے خاتون کو سب مسافروں کے سامنے کیوں مارا پیٹا اور اس خاتون نے خودکشی کی یا اسے مارا گیا ہے – ڈی آئی جی ساؤتھ ریلوے عبداللہ شیخ کے مطابق ملت ایکسپریس میں پولیس اہلکار کے خاتون پر تشدد کے کیس میں تحقیقات جاری ہیں ملت ایکسپریس سے خاتون کے مبینہ طور پر گر کر جاں بحق ہونے اور پولیس اہلکار کی جانب سے تشدد کیس میں پولیس نے کانسٹیبل کے فون کی تفصیلات حاصل کرلی ہیں۔
کانسٹیبل منیرکے سی ڈی آر کے مطابق 7 اپریل کو کانسٹیبل کا فون کراچی اور حیدرآباد کے درمیان رہا، میر حسن کا فون اس کی والدہ کے نام پر ہے، کانسٹیبل کے فون سے 19 فون کالز اور ایس ایم ایس ریکارڈ پر ہیں۔
مریم بی بی کے بھائی نے بتایا کہ ان کی بہن کراچی میں بیوٹی پارلر پر ملازمت کرتی تھی، سات اپریل کو بیٹے کے ساتھ کراچی سے عید منانے جڑانوالہ آرہی تھیں کہ ریلوے پولیس اہلکار میرحسن تشدد کے بعد مریم کو اپنے ساتھ لے گیا تھا، اور اسی اہلکار نے قتل کیا ہے جبکہ پرس سے نقدی اور زیور بھی غائب ہے۔خاتون کے ساتھ ٹرین میں موجود بھتیجے کا کہنا تھا کہ پھوپھو نے گھورنے پر پولیس اہلکار کو ڈانٹا تھا۔مریم کی لاش بہاولپور کے قریب چنی گوٹھ سے ملی تھی، ترجمان ریلوے کا کہنا تھا مسافروں کے مطابق خاتون نے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگائی
تاہم مریم کے اہلخانہ نے ریلوے پولیس کانسٹیبل کیخلاف مقدمہ درج کرنے کیلئے درخواست بھی دے دی ہے۔خاتون پر تشدد کرنے والے اہلکارمیرحسن کو معطل کرکےلائین حاضرکردیا گیا ہے ، ایس ایچ او ریلوے حیدرآباد کا کہنا ہے واقعے کی تفیتیش جاری ہے جبکہ ٹرین میں موجود دو ٹی سیزکوبھی تفتیش کے لیے لاہوربھیج دیا گیا ہے۔
فون ریکارڈ کے مطابق منیر 8 اپریل کو کراچی واپس گیا اس حوالے سے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے ،ملزم کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔واضح رہے کہ چند روز قبل چلتی ٹرین میں خاتون اور بچے پر پولیس اہلکار کے تشدد کی ویڈیو سامنے آئی تھی جس کے بعد تشدد کرنے والے اہلکار کو گرفتار کر لیا گیا جو بعد میں ضمانت پر رہا ہوگیا۔سامنے آنے والی ویڈیو میں خاتون کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’مار کیوں رہا ہے، مار نہیں، مار نہیں‘۔بعد ازاں خاتون کی لاش برآمد ہوئی جس پر پولیس نے مؤقف اختیار کیا کہ خاتون نے ٹرین سے چھلانگ لگائی۔یہ بھی اطلاعات آرہی ہیں کہ وہ کاتون کراچی کے ایک پارلر میں کام کرتی تھی اور عید پر اپنے گھر لوٹ رہی تھی یہ بھی کہا جارہا ہے کہ خاتون کسی زہنی مسئلے سے بھی دوچار تھی یا اس پر آسیب کا بھی اثر تھا مگر پولیس کی بات پر کب کوئی یقین کرتا ہے کیونکہ جس طرح کی باتیں ایف آئی ار میں لکھی جاتی ہیں وہ افسانوں میں بھی نہیں ملتیں ،10 میں سے 9 پولیس مقابلے ایسے ہوتے ہین جہان پولیس کی تحویل اور وین میں بیٹھا مجرم ،چھڑوانے کے لیے آنے والے اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے مارا جاتا ہے اور کسی پولیس والے کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچتا نہ ہی ان کی چلتی گاڑی کو کچھ ہوتا ہے – لیکن یہ معاملہ دبنے والا نہیں ہے اور جب اس لڑکی کے اہل خانہ میڈیا پر آئیں گے توہی پتہ چلے گا کہ آخر اس عورت کے ساتھ کیا ہوا تھا ؟-خدا کرے کہ اس بار پھر اس معاملے کو غیرت کا رنگ دے کر اس خاتون پر تہمت کاداغ نہ لگے جو پہلے ظلم وستم کا نشانہ بنی اور پھر اس دنیا سے ہی رخصت ہوگئی -کیونکہ پاکستان میں سب سے آسان حل یہی تلاش کیا گیا ہے کہ اگر کسیپنی یا واقف عورت کی جان لینی ہو تو اس پر کاروکاری کا الزام لگادو سب عزیز اور رشتہدار اور اہل محلہ اس معاملے پر خاموشی اختیار کرلیں گے –