جیسے زلزلے کے آفٹر شاکس کا سلسلہ کئی روز جاری رہتا ہے اس طرح پاکستان میں اس وقت مشکوک خطوط کے آنے کا سلسلہ بھی جاری ہے ؛ججوں کے بعد اب اس فہرست میں سیاست دانوں کے نام بھی ڈال دیے گئے ہیں – راولپنڈی کے تھانہ نصیر آباد کے علاقے ڈھوک گجراں کے ڈاکخانے کے لیٹر باکس سے اعلیٰ شخصیات کو ارسال کیے گئے مزید 4 خطوط برآمد ہوئے ہیں۔ ایک خط چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، وزیراعظم شہباز شریف اور 2 خطوط پر وزیراعلیٰ پنجاب کے نام درج ہیں جبکہ ان پر ارسال کرنے والوں کا ایڈریس یا کوئی شناخت درج نہیں ہے۔خطوط مشکوک ہونے پر پوسٹ آفس کے عملے نے پالیسی کے مطابق خطوط روک کر محکمہ ڈاک کے اعلی حکام کو آگاہ کردیا جبکہ لیٹر بکس سے خطوط نکلے اُن میں سے ملنے والی تمام ڈاک کو بھی روک دیا گیا ہے۔
پاکستان پوسٹ آفس کے افسر نے کہا کہ صبح اعلی حکام کی جانب سے ہدایات ملنے پر مزید جانچ پڑتال کی جائے گی۔دوسری جانب خطوط کی اطلاع ملنے پر راولپنڈی پولیس حکام اور اینٹی نارکوٹکس کے ماہرین بھی موقع پر پہنچے، جہاں انہوں نے خطوط چیک کیے۔ تاہم اس بار ان میں کوئی خاص کیمیکل شامل نہیں کیا گیا تھا جس کی ماہرین نے تصدیق کردی۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس بار ان خطوط میں میں اخباری تراشہ ہے جس میں فوڈ اتھارٹی کو ختم کرنے کی اپیل ہے۔پولیس نے خطوط کو معمولی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان پر صرف بجھوانے والے کانام وغیرہ درج نہیں جس کی وجہ سے محکمہ ڈاک نے مشکوک قرار دیا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ جبکہ لاہور ہائیکورٹ کے تین ججز کو بھی سفوف والے دھمکی آمیز خطوط موصول ہوچکے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں ججز کو موصول ہونے والے دھمکی آمیز خطوط کے از خود نوٹس کی فل کورٹ ایک سماعت بھی کرچکا ہے۔مگر ان خطوں کو اگر ہلکا لیا گیا تو اس کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہین حکومت کا فرض ہے کہ معلوم کرے کہ اس طرح کی شرمناک حرکات کون کررہا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟ -لیکن ہمیں عدلیہ سے امید ہے کہ وہ ان خطوط کے حوالے سے ہرممکن کوشش کرے گی کہ آخر اس مزموم حرکت کے کیا مقاصد تھے –