چونیاں میں پنجاب ہائی وے پٹرولنگ پولیس میں تعینات خاتون کانسٹیبل سمیرا صدیق نے دورانِ ڈیوٹی ہیلمٹ نہ پہننے پر اپنے والد کا چالان کر دیا۔سمیرا نے بتایا کہ جس روز والد صاحب کا چالان کیا اور ڈیوٹی مکمل کرنے کے بعد شام کو وہ گھر واپس آئیں تو ان کی والدہ نے ناراضگی کا اظہار کیا لیکن والد صاحب نے ان کا ماتھا چوما۔ ’مگر میں نے اور ابو نے انھیں سمجھایا تو بعد میں اماں جان بھی خوش تھیں کہ آج ہماری بیٹی نے اچھا کام کیا ہے۔‘
سمیرا صدیق کاکہناتھاکہ جب پولیس میں بھرتی ہوئی تو یہی عزم تھا کہ بے شک میں کانسٹیبل ہوں لیکن کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرنی اور سب سے انصاف کرنا ہے ۔ مگر یہ وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میرے اس انصاف کا شکار میرے ہاتھوں اپنے والد صاحب ہی ہو جائیں گے، انھوں نے کہا کہ پنجاب میں پولیس کی طرف سے صوبے کے تمام اضلاع میں موٹر سائیکل سواروں کو ہیلمٹ کی پابندی کے حوالے سے خصوصی مہم ان دنوں چل رہی ہے اور ہیلمٹ نہ پہننے والوں کے چالان بڑی تعداد میں کیے جا رہے ہیں، ہم تین اہلکار معمول کے مطابق قصور روڈ پر ناکہ لگائے کھڑے تھے اور ہیلمٹ نہ پہننے والوں کو روک کر ان کے چالان کر رہے تھے، ناکے پر ایک موٹر سائیکل روکی گئی جس پر اتفاق سے میرے والد صاحب ہی سوار تھے۔‘
سمیرا نے کہا کہ ’میں نے انہیں سلام کیا اور کہا کہ آپ کو ہیلمٹ پہننا چاہیے تھا، یہ آپ کی زندگی کی حفاظت کےلیے ضروری ہے۔ میں نے اپنی ساتھی اہلکار کو بتایا کہ یہ میرے والد صاحب ہیں تو اس نے بھی انھیں سلام کیا لیکن جب میں نے موقع پر موجود اے ایس آئی کو کہا کہ اُن کا بھی چالان کریں کیونکہ قانون سب کےلیے برابر ہوتا ہے تو دونوں ساتھی اہلکار حیران رہ گئے۔ پھر میرے دوبارہ کہنے پر اے ایس آئی نے دو سو روپے کی چالان رسید بنا کر میرے والد صاحب کے حوالے کر دی ۔
سمیرا کا کہنا تھا کہ ’بڑی گاڑیوں کا چالان کریں تو وہ بُرا منا جاتے ہیں لیکن انھیں کسی کی پرواہ نہیں، ہم اپنے محکمے کو جوابدہ ہیں، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم موٹر سائیکل سواروں یا چھوٹی گاڑیوں کو توروکیں اور بڑی گاڑیوں والے گزر جائیں۔ قانون سب کےلیے برابر ہونا چاہیے –
سمیرا کے والد کہتے ہیں کہ میری بیٹی نے چندروز قبل مجھے بتایا تھا کہ ابو جی ہیلمٹ نہ پہننے والوں کے خلاف خصوصی مہم چل رہی ہے ، آپ نے ہیلمٹ پہن کر گھر سے نکلنا ہے، لیکن میں نے اس کی بات کو نظر انداز کر دیا تھا کیونکہ میرا خیال تھا کہ اگر کسی نے روکا تو میں اپنی بیٹی کا حوالہ دے دوں گا -، لیکن جب ناکے پر میری بیٹی نے ہی مجھے روکا تو مجھے اس وقت اس کی وہ بات یاد آ گئی، لیکن اب کیا ہو سکتا تھا ، اس نے کہا کہ ابو جی آپ کا چالان ہو گا ، میں نے کہا کہ بسم اللہ کرو بیٹی۔‘محمد صدیق نے کہا کہ ’اگر وہ مجھے چھوڑ دیتی تو شاید اتنی خوشی نہ ہوتی، جتنی چالان بھگت کر ہوئی ہے۔ بات دو سو روپے کی نہیں ، بات اصول کی ہے۔