پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے جس طرح مشکل وقت کا ڈٹ کر سامنا کیا ہے اس پر ان کے مخالفین بھی حیران ہیں -اس کا اثر اب ان کے ووٹرز پر بھی پڑرہا ہے اور لگ یہی رہا ہے کہ اب 8 فروری کو پی ٹی آئی کی ایک بہت ڑی تعداد اپنے امیدواروں کو ووٹ دینے گھروں سے ہر صورت نکلے گی -اسی لیے ان کے مخالفین کے چہروں پر وہ رونق نظر نہیں آرہی جو اکتوبر یا نومبر تک تھی -اس پر آج سہیل وڑائچ نے بھی کالم لکھا ہے جس میں انھوں نے کہہ دا کہ حالات تبدیل ہوتے جارہے ہیں اور معاملات نون لیگ کے ہاتھ میں نہیں رہے اب پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے آزاد امیدوار بھی اگلی حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں –
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ جماعتیں پیچھے رہ گئی ہیں اور آزاد امیدواروں کا میلہ لگ رہا ہےیہ لوگ نہ جماعتی ڈسپلن کے پابند ہونگے نہ ہی انکے کوئی نظریات ہونگے ، ترقیاتی فنڈز کیلئے ہر سیاسی اور اخلاقی اصول پامال کرنے کو تیار ہونگے۔پہلے صرف نون اور باؤجی کو سب کچھ دینے کی بات ہو رہی تھی، اب کہا جا رہا ہے کہ طاقت کا توازن آزاد امیدواروں کے حق میں آ رہا ہے۔
سہیل وڑائچ نے لکھا ہے کہآئندہ انتخابات کا جو نقشہ سامنے آرہا ہے وہ بڑا عجیب و غریب ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ ہم دوبارہ سے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کی صورتحال کی طرف رواں دواں ہیں۔ 1985ء میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں 1088آزاد امیدار تھے جبکہ 2024ء کے انتخابات میں 3248آزاد امیدوار آمنے سامنے ہیں۔ لگتا ہے کہ پارٹیاں پیچھے رہ گئی ہیں اور آزاد امیدواروں کا میلہ لگ رہا ہے۔ باجوہ ڈاکٹرائن میں جو غیر جماعتی، غیر نظریاتی لوگوں کا کلچر ختم کرنے کی بات کی جارہی تھی اب لگ رہا ہے کہ کہ وہی غیر جماعتی اور آزاد امیدواروں کا کلچر بحال ہو جائیگا یہ لوگ نہ جماعتی ڈسپلن کے پابند ہونگے نہ ہی انکے کوئی نظریات ہونگے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سیاستدان اب بھیرون کی طرح بکے گیں ہارس ٹریڈنگ عراج پر ہوگی اور ملک میں نیا تماشہ لگے گا –
اپنے بلاگ میں سہیل وڑائچ نے مزید لکھا کہ جب نواز شریف نے لندن سے آنا تھا تو ریاستی حکمت عملی یہ نظر آ رہی تھی کہ سارا اقتدار و اختیار باؤ جی کی جھولی میں ڈال دینا ہے، اس حد تک کہا گیا کہ سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کو اقتدار نہیں دینا اور باقی سارے ریاستی انڈے بھی باؤ جی کے ٹوکرے میں ڈال دینے ہیں۔ کچھ ہفتوں بعد سوچ میں پھر تبدیلی آئی، پیپلزپارٹی کو سندھ میں دبانے کی حکمت عملی بدل گئی اور کہا جانے لگا کہ سپلٹ مینڈیٹ آئے گا۔ وزیراعظم نواز شریف اور صدر آصف زرداری بنیں گے، اندازہ یہ لگایا گیا کہ 70 سے 80 نشستیں (ن) لیگ لے گی اور 50 سے 60 نشستیں پیپلزپارٹی لے گی یوں انکی مخلوط حکومت بنائی جائے گی پھر یکایک نئی حکمت عملی سامنے آئی کہ تحریک انصاف کو آزادانہ موقع ملا تو وہ انتخابات سویپ کر جائے گی اس لئے انتخابات کو ملتوی کروایا جائے، اس کوشش کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کامیاب نہ ہونے دیا، اسی دوران جسٹس اطہرمن اللہ نے ایک اہم سائفر مقدمے میں عمران خان کو بری کر دیا ساتھ ہی ساتھ پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کو ریلیف دیا تو ریاست اور عدلیہ میں مکمل ٹھن گئی ایسی تجاویز تک سامنے آنے لگیں کہ ججوں کو فارغ کیسے کیا جائے مگر پھر عدلیہ اور ریاست میں درمیانی راستہ نکال لیا گیا۔ تحریک انصاف سے بلے کا نشان واپس لیا گیا تو پھر سے حکمت عملی میں تبدیلی نظر آنا شروع ہو گئی، اب دوبارہ سے جہانگیر ترین اور علیم خان کی آئی پی پی کی اہمیت بڑھ گئی ہے ۔ ریاست کے اہلکار خوش ہیں کہ اگر آزاد امیدوار زیادہ تعداد میں جیت کر سامنے آ گئے تو انہیں ہینڈل کرنا آسان ہو جائیگا ۔تازہ ترین تبدیلی جو حکمت عملی میں آ رہی ہے یہ کہ الیکشن کے قریب سب کو فری ہینڈ دیا جائے کیونکہ اب سوچ یہ ہے کہ نون کو بھی اتنا طاقتور نہیں کرنا کہ وہ کل کو ریاست کے خلاف کھڑی ہوسکے۔ دوسری طرف (ن) لیگ کی حکمت عملی شروع ہی سے یہ تھی کہ انتظامیہ انکی مرضی کی ہو اور وہ وقت آنے پر انکی بھی مدد کرے۔ ابھی تک نون کو اپنی مرضی کی انتظامیہ کا فائدہ ہو رہا ہے حالانکہ ریاست کی حکمت عملی اب نون کی اندھا دھند حمایت نظر نہیں آرہی ۔اب اگر ریاست کی بدلتی حکمت عملیوں کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آرہا ہے کہ سیاسی اہداف میں مکمل کنفیوژن ہے۔ کبھی کچھ اہداف مقرر کئے جاتے ہیں اور کبھی کچھ۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی بدلتی حکمت عملیوں میں کسی بھی واضح پلان پر عملدآمد ممکن نہیں رہتا۔
سہیل وڑائچ نے اپنے کالم میں یہ بھی تحریرکیا کہ الیکشن کا رزلٹ کیا ہوگا ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا، یہ بات البتہ طے ہے کہ الیکشن جیسا بھی ہو بہرحال تبدیلیاں ضرور لاتا ہے۔ جب تک سیاست اور سیاسی جماعتیں مضبوط نہیں ہونگی ریاست بھی مضبوط نہیں ہو گی۔دوسری طرف اہل سیاست کو بھی اپنی معاشی معاملات کے بارے میں اہلیت بڑھانا ہو گی ،سیاسی جماعتوں کے اندر ڈاکٹروں، انجینئروں، ماہرین معیشت اور دوسرے پروفیشنلز کو لانا ہوگا تاکہ جب بھی کسی سیاسی جماعت کو اقتدار میں آنے کا موقع ملے، وہ اس قابل تو ہو کہ ملک کومنظم اور احسن طریقے سے چلاسکے۔ انھوں نے آخر میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ آزاد امیدواروں کی نئی سرے سے اسمبلی بنا کر کیا سیاست بہتر ہو جائےگی؟ ہرگز نہیں۔ ہو گا کیا، بس ریاست کا کنٹرول بڑھ جائے گا، ریاست کے پاس پہلے ہی بہت کچھ ہے اسے ہی کنٹرول کرلے تو کافی ہے، سیاست کو کنٹرول کرنے کا خیال ہی سرے سے غلط، غیر آئینی، غیر جمہوری اور سب سے بڑھ کر ریاست کے وجود کیلئے خطرناک ہے۔ سب مقتدر حلقوں کو یہی سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں مگر وہ 30 سال پرانی سوچ اور پالیسی سے باہر ہی نہیں آرہے اور اپنی اہمیت کم کرتے جارہے ہیں –