پاکستان مین اخلاقی اقدار میں اس قدر گراوٹ آگئی ہے کہ حکومتی سطح تک اہم عہدوں پر بیٹھے لوگ ڈھٹائی کے ساتھ اپنی بات سے مکر جاتے ہیں -اور اب یہ حالت ہوگئی ہے کہ لوگ وزیراعظم اور صدر،مختلف پارٹیوں کے سربراہان کے ساتھ ساتھ عدالتوں کے ججز کے بیانات پر بھی یقین نہیں کرتے –
آج اسی طرح کا بیان نگراں وزیراعظم انوارالحق کا کڑ نے پھر دے دیا انھوں نے کہا ہے کہ بانی تحریک انصاف عمران خان اور ان کی پارٹی پر انتخابات میں حصہ لینے پر ابھی تک کوئی قدغن نہیں، تاہم مقدمات ابھی زیر سماعت ہیں، اگر کوئی غیرمعمولی چیز آجاتی ہے تو پھر کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ۔
وزیراعظم نے کہا کہ 8 فروری کے عام انتخابات کے بارے میں کوئی شک نہیں، قوم بھی شک میں نہ رہے، الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابات کا شیڈول 56 روز پر محیط ہوگا، جس کے اعتبار سے 14 دسمبر تک انتخابی شیڈول کا اعلان ہو جانا چاہیے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کا العزیزیہ ریفرنس میں نوازشریف کی اپیل پر سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے واضح کیا کہ اس خطے میں فری اینڈ فیئر الیکشن کا جو پیمانہ ہے، اس کے مطابق امید ہے کہ انتخابات فروری میں ہوں گے یہاں جو انھوں نے امید کی بات کی ہے یہی جملہ ناامیدی پیدا کررہا ہے -، انھوں نے پی ٹی آئی کے پاپولر جماعت ہونے پر تنقید کرتے ہوئے پارٹی کا نام لیے بغیر کہا کہ کس رہنما کی کتنی مقبولیت ہے یا نہیں ہے۔ اس کا اندازہ انتخابات میں ہو جائے گا۔ انھوں نے شیخ رشید کو بھی رگڑا لگایا ان کا کہنا تھا نگراں وزیراعظم نے کہا کہ چِلّا کاٹنے والے لوگ خود جواب دیں، میں سیاستدانوں کو گر نہیں بتا سکتا میں تو خود سیکھ رہا ہوں۔انوارالحق کاکڑ نے یہ بھی کہا کہ کوئی جماعت مجھے شمولیت کا کہے گی تو عہدے کی مدت پوری ہونے کے بعد غور کروں گا، ایک گھنٹے کی ملاقات میں کسی شخصیت کے بارے میں حتمی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔بظاہر یہی نظر ارہا ہے کہ انوارالحق کاکڑ اپنی مدت پوری ہونے کے بعد وزیراعظم کی کرسی سے الگ ہوکر نون لیگ میں شمولیت اختیار کرلیں گے –