سپریم کورٹ کے وکیل سلمان بٹ سپریم کورٹ کے ججز کے اونچا بولنے پر طیش میں آگئے اور کہا کہ عدالت ہو یا کوئی جگہ مجھ پر کوئی چلائے مجھے یہ برداشت نہیں ہے – بحریہ ٹاون سے 460 ارب کی عدم ادائیگی کے کیس میں ججز اور بحریہ ٹاؤن کے وکیل کے مابین تلخ کلامی ہو گئی وکیل صاحب کافی دیر کھڑے ہوکر دلائل دینے پر بھی ناخوش نظر آئے -جس کا انھوں نے عدالت سے اظہار بھی کیا – تاہم چیف جسٹس پاکستان نے وکیل کو جزباتی ہونے سے روک دیا۔ بحریہ ٹاون سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران بحریہ ٹاون کے وکیل سلمان بٹ نے ججز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھ پر اونچا نہ بولیں، مجھے پسند نہیں کہ کوئی مجھ پر چلائے۔ عدالت ہو یا کوئی بھی جگہ میں خود پر چلائے جانے کو پسند نہیں کرتا۔
اس پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آپ پر چلا نہیں رہے نہ ہی ہم آپ کو بھی ایسا کرنے کی اجازت دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی گفتگو کے بعد سمجھ نہیں آتی ہم روئیں یا برداشت کریں ۔ جب چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کی بات سننے کے لیے رات تک بیٹھنے کو تیار ہیں تو بحریہ ٹاون کے وکیل نے کہا کہ مزید کھڑا نہیں رہ سکتا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو کرسی دے دیتے ہیں، بیٹھ کر دلائل دے دیں ساتھ ہی قاضی فائز عیسیٰ نے عدالتی عملے کو وکیل کے لیے کرسی لانے کی ہدایت کر دی۔ تاہم وکیل بحریہ ٹاون نے کرسی کی آفر قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے کوئی کرسی نہیں چاہئے۔
جس کے بعد دوران سماعت بحریہ ٹاون کراچی کا نقشہ پیش کیا گیا۔ چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ درخواست 2019 میں دائر کی گئی،آپ دستاویزات 2022 کی لگا رہے ہیں۔ انہوں نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہاکہ قانون کے شعبے سے وابستہ ہوئے 41 سال ہو گئے ہیں، کچھ عزت دیں۔ آپ ایسے ہی جاری رکھیں گے تو نتائج کیلئے بھی تیار رہیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ آپ کو ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے لے آوٹ منظوری کا خط کب جاری کیا؟وکیل نے کہا کہ آپ 16 ہزار ایکڑ زمین سے متعلق دوبارہ آرڈر کر دیں، اس کا جائزہ لیا جائے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے زیر قبضہ زمین کی سروے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی گئی جس میں بحریہ ٹاؤن کے پاس معاہدے سے 3 ہزار ایکڑ زائد زمین ہونے کا انکشاف کیا گیا ہے۔جس کے بعد سے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کافی مشکل سے دوچار ہیں جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان کا بھی کوئی انٹرویو جلد نشر ہونے والا ہے –