پچھلے سال، چھوٹے کسانوں کی نمائندگی کرنے والے کسان اتحاد نے ستمبر میں اسلام آباد میں 10 روزہ احتجاج کیا وہ کئی دن تک سڑکوں پر رہے اور کھلے آسمان تلے سوتے رہے جس پر شہباز حکومت نے ان کے مطالبات ماننے اور ان کو ریلیف دینے کا وعدہ کیا تھا جس کے بعد کسانوں نے اپنا احتجاج ختمکردیا تھا اور گھروں کو لوٹ گئے تھے مگر جاتے جاتے پریس کانفرنس میں یہ وارننگ دے گئے تھے کہ اگر انکے مطالبات پورے نہ کیے تو وہ پھر اسلام آباد کا رخ کریں گے -، جس کے نتیجے میں وفاقی حکومت کی جانب سے 1.8 ٹریلین روپے کے ‘کسان پیکج’ کا اعلان کیا گیا۔تاہم اعلان کردہ پیکج کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوئی ٹھوس عملی اقدامات نہیں کیے گئے اور یہ کاغذ پر ہی رہ گیا ۔
اب اس پر کسان اتحاد نے دوبارہ غور شروع کردیا ہے -10 اکتوبر کو تمام اضلاع کے ضلعی صدور کے اجلاس میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔کسان اتحاد کے مرکزی صدر ملک ذوالفقار اعوان نے کہا کہ حکومتی پالیسیاں کسانوں کو مار رہی ہیں اور اربوں ڈالر لوٹنے والوں کو پکڑنے کے بجائے غریب کسان کو تنگ کیا جا رہا ہے۔کسانوں کے اتحاد کی طرف سے درج کردہ لانگ مارچ کے پیچھے کی اہم وجوہات بجلی، گیس اور کھاد کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہیں جس کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں جہاں عام آدمی اور کسان دونوں ہی بجلی کے بل ادا نہیں کر سکتے۔یوریا کھاد گزشتہ دو سالوں سے بلیک مارکیٹ میں فروخت ہونے کی وجہ سے فصل کی پیداوار میں کمی آئی اور ڈیلروں کی دکانوں کے باہر کاشتکاروں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔
کسان اتحاد کی حکومت ایک بار پھر کو پھر اسلام آباد مارچ کی دھمکی
Leave a comment
Leave a comment