سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی – ۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ پر بنیادی انسانی حقوق کا اطلاق نہیں ہوتا۔ انہوں نے آرمی ایکٹ 2015 کا سیکشن 2 ون بی عدالت میں پڑھ کر سنایا۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نے ریمارکس دیئے کہ آرمی ایکٹ 2015 میں زیادہ زور دہشت گرد گروپس پر دیا گیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایکٹ میں افراد کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ اس پر اعلیٰ عدلیہ کے جج برہم دکھائی دیے -جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کے دلائل سے تو لگتا ہے بنیادی حقوق ختم ہو گئے، کیا پارلیمنٹ آرمی ایکٹ میں ترمیم کر سکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ جی ہاں پارلیمنٹ آرمی ایکٹ میں ترمیم کر سکتی ہے۔ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ کہ اس معاملے پر ایک بار پھر ادارے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہونے جارہے ہیں –
سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع نہیں ہو گا، چیف جسٹس
مزید تفصیلات: https://t.co/6xJniqALAn#ARYNewsUrdu pic.twitter.com/ksc8j5WaOM
— ARY News Urdu (@arynewsud) July 21, 2023
عدالت نے حکومتی وکیل کے ریمارکس پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا یہ کبھی نہیں ہو سکتا بنیادی انسانی حقوق کبھی آ رہے ہیں کبھی جار ہے ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ قانون بنیادی حقوق کے تناظر میں ہونا چاہئے۔ آپ کی دلیل یہ ہے ریاست کی مرضی ہے بنیادی حقوق دے یا نہ دے۔اس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اکیسویں ترمیم میں عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کی بات کی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی حقوق کو صرف قانون سازی سے ختم نہیں کیا جا سکتا اس بارے میں سوچیں، پاکستان کے نظام عدل میں عدلیہ کی آزادی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ عدلیہ کی آزادی کو سپریم کورٹ بنیادی حقوق قراردے چکی ہے۔ ٹرائل کورٹ پر سب کچھ نہیں چھوڑ سکتے۔ 2015 میں 21 ویں ترمیم کے ذریعے آئین پاکستان کو ایک طرف کر دیا گیا، مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی کہ 9 مئی کے واقعات پر ملٹری کورٹس کے ٹرائل کے فیصلوں میں تفصیلی وجوہات کا ذکر ہوگا۔سپریم کورٹ نے واضح طور سے کہہ دیا کہ عدالت سے کوئی بات مخفی نہ رکھی جائے اور سپریم کورٹ کی اجازت کے بغیر ملزمان کا ٹرائل شروع نہ کیا جائے ورنہ اس کے سنگین نتائج ہوں گے –