لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے استعفے کو چیلنج کرنے والی رٹ درخواست خارج کر دی اس کے بعد چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ابتدائی طور پر وکیل پر 10لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا۔ لیکن بعد میں سینئر وکلاء کی مداخلت کے بعد انہوں نے حکم واپس لے لیا ۔
درخواست ایڈووکیٹ ندیم سرور کے ذریعے دائر کی گئی جس میں درخواست گزار ایم تنویر نے موقف اختیار کیا کہ سابق گورنر محمد سرور نے استعفیٰ منظور کرکے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔
بدھ کو محمدتنویر کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ سابق گورنر کے اقدام کو ‘غیر قانونی’ قرار دیا جائے کیونکہ انہوں نے استعفیٰ قبول کر لیا تھا جس میں ان کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا تھا۔
آج کی کارروائی کے دوران لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے درخواست گزار کے وکیل سے پوچھا کہ کیا وہ متاثرہ فریق ہیں؟
وکیل نے جواب دیا کہ “میں عوامی مفاد کے مقدمے کی نمائندگی کر رہا ہوں، انہوں نے مزید کہا کہ سابق وزیراعلیٰ بزدار کا استعفیٰ غیر قانونی ہے کیونکہ انہوں نے گورنر پنجاب کو مخاطب نہیں کیا تھا۔
اس پر چیف جسٹس بھٹی نے ایڈووکیٹ ندیم سے مزید استفسار کیا۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ استعفیٰ ہینڈ رائٹنگ میں ہونا چاہیے، اس لیے اگر کوئی وزیر اعلیٰ ہو جسے لکھنا نہیں آتا اور وہ ٹائپ شدہ استعفیٰ لے کر آتا ہے تو استعفیٰ کی منظوری کے بارے میں آپ کیا کہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ آپ کو کس نے کہا کہ اگر گورنر سے خطاب نہیں کیا گیا تو استعفیٰ قبول نہیں کیا جا سکتا؟
وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ آئین کے اصل جوہر کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔
جج نے جواب دیا، اس ملک کا مذاق مت اڑائیں، یہ تباہی کے کنارے پر ہے اور یہاں سانس لینا مشکل ہے لیکن یہاں کوئی اس کے بارے میں سوچنے والا نہیں ہے اس کے بعد عدالت نے درخواست مستردکردی ۔