فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے منگل کو راولپنڈی میں دو نوعمر لڑکیوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ان کی ویڈیوز بنانے میں ملوث پنجاب پولیس کے دو اہلکاروں سمیت چار رکنی گینگ کو گرفتار کر لیا۔
ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے متاثرین کی شکایت پر کارروائی کی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شہر کے مختلف مقامات پر چھاپے مار کر ملزمان کو گرفتار کر لیا۔
متاثرہ لڑکیوں میں سے ایک نے ایف آئی اے کو بتایا کہ اس کے جاننے والے ایک شخص نے فون کیا اور اسے دوسرے دن ملنے کے لیے کہا، جہاں وہ اپنی دوست کے ساتھ گئی تھی۔
لڑکی نے بیان کیا کہ وہ انہیں ایک کار میں اٹھا کر اپنے دوست عدنان کے گھر لے گیا۔ اس نے الزام لگایا کہ ملزم کے دیگر ساتھی بھی ان کے ساتھ اس گھر میں شامل ہوئے جہاں انہوں نے انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
اس نے کہا کہ اس لرکے کے کے دو دوستوں نے پنجاب پولیس کی وردی پہن رکھی تھی جنہوں نے اس جرم میں بھی حصہ لیا۔
اس کے بعد، ایک شکایت کنندہ کے مطابق، اس لڑکے نے اسے قابل اعتراض ویڈیوز بھیجنا شروع کر دیں اور انہیں آن لائن لیک نہ کرنے کے بدلے میں 500,000 روپے کا مطالبہ کیا۔ اس نے مزید کہا کہ ملزم نے پیسے نہ دینے کی صورت میں ویڈیو اس کے والدین کو بھیجنے کی دھمکی بھی دی۔
شکایت میں اس متاثرہ لڑکی کا کہنا تھا کہ دو پولیس افسروں میں سے ایک، ، راولپنڈی کے چونترہ پولیس اسٹیشن میں ہیڈ کانسٹیبل کے طور پر تعینات ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ دونوں پولیس اہلکاروں نے 50,000 روپے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ مزید تفتیش جاری ہے۔
یہ کیس اسلام آباد میں اس مشہور زمانہ ٹک ٹاکر حملہ کیس سے مشابہت رکھتا ہے جس میں ملزمان نے جوڑے کو بندوق کی نوک پر پکڑ کر زبردستی کپڑے اتارے اور پھر ان کی پٹائی کی۔ مزید برآں ملزمان نے جوڑے کو نازیبا حرکات کرکے زبانی اور جسمانی طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا۔
ایک ماہ قبل ایک سیشن عدالت نے مرکزی ملزم عثمان مرزا سمیت سات افراد پر اس جرم میں فرد جرم عائد کی تھی ۔