پاکستان میں ٹریفک وارڈنز روزانہ سڑکوں پر عوام کے لیے دھول پھانکتے نظر آتے ہیں۔
ٹریفک وارڈنز لوگوں کے بے ترتیب ہجوم کو ٹریفک رولز پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے چالان کرتے نظر آتے ہیں۔
لیکن کیا واقعی آج کے ٹیکنالوجی کے جدید دور میں ٹریفک کے محکمے کی ضرورت ہے ؟
کہیں یہ ادارہ بھی ملک کا پیسہ ہی تو نہیں کھا رہا ؟
یوں تو ٹریفک وارڈنز کی ایمانداری مشہور ہے لیکن کیا انکی ضرورت بھی ہے یا دنیا میں اسکا بھی سستا اور آسان متبادل آ چکا ہے ؟
آپ اگر لاہور میں رہتے ہیں اور آپ نے کینٹ میں بھی بائیک یا گاڑی پر سفر کیا ہو تو آپکو کینٹ میں بہت کم، بلکہ کہیں کہیں ٹریفک وارڈنز کھڑے نظر آتے ہیں۔
کینٹ کے علاقے میں آپکو بہت کم کوئی اشارے کی خلاف ورزی کرتا ہوا نظر آئے گا۔
اس کی کیا وجہ ہے کہ وہی شہری جو کینٹ کے باہر شاید کئی اشارے توڑ کر آیا ہے کینٹ میں آتے ہیں مہذب ہو جاتا ہے ؟
دراصل اس کی وجہ قانون ہے۔
کینٹ میں ہر اشارے پر مانیٹرنگ کے لیے کیمرے لگے ہوئے ہیں اور اگر آپ ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کریں گے تو کیمرے آپکی بائیک یا گاڑی کا نمبر نوٹ کر لیں گے اور آپکو فوری ای چالان کا میسیج آ جائے گا۔
آپ کسی بھی سمت سے کینٹ میں داخل ہوں تو موٹر بائیک والوں کو ہیلمٹ کے بغیر داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔
یعنی کینٹ کے علاقے میں ہر بائیک سوار نے ہیلمٹ پہنا ہو گا اور اشارے کی خلاف ورزی بھی نہیں ہو گی۔
اسی طرح پورے شہر میں کیمرے کیوں نصب نہیں کیے جا سکتے ؟
حکومت پٹواری نظام کو ختم کر کے ہر معاملہ آن لائن کرنے پر تلی ہے لیکن اس ادارے کی جانب سرے سے کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔
ٹریفک وارڈنز کے ساتھ لوگ لڑائی کرتے نظر آتے ہیں اور بعض جگہوں پر ٹریفک آفیسر بھی لوگوں سے بدتمیزی کرتے نظر آتے ہیں۔
ٹریفک کے محکمے کو جو تنخواہیں دی جاتی ہیں اس پیسے سے ملک کے دیگر اداروں میں کام کیا جا سکتا ہے۔
ٹریفک وارڈنز جس کسی کا چالان کرتے ہیں تو مچلون اس چالان کی پرچی دکھا کر ہر اشارے پر خلاف ورزی کر سکتا ہے۔
اس کی بجائے ہونا تو یہ چاہیے کہ پہلے کسی شہری کو سمجھایا جائے کہ اگر وہ غلط راستے سے آ رہا ہے تو وہ ٹھیک راستہ اختیار کرے اس طرح اسکا چالان نہیں کاٹا جائے گا۔
یا اگر کسی نے ہیلمٹ نہیں پہنا تو شہر کے مختلف راستوں پر پابندی لگا دی جائے اور کسی کوسڑک پر گاڑی نہ چلانے دی جائے۔
جس طرح کینٹ میں داخلے کے وقت ڈیوٹی پر کھڑا فوجی آپکا چالان نہیں کرتا بلکہ آپکو واپس بھیج دیتا ہے۔
اسی طرح شہریوں کو خلاف ورزی کرنے کا پرمٹ دینے کی بجائے اس طرح کا لائحہ عمل اختیار کیا جائے جو تعمیری ہو۔
اس سے عوام کا غم و غصہ کم ہو گا اور وہ بات کو سمجھیں گے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر قوانین اس عوام کو ٹھیک کرنے کے لیے نہیں بلکہ بلاوجہ زچ پہنچانے کے لیے لاگو کیے جاتے ہیں۔
سب سے پہلے یہ سمجھا جائے کہ اس خطے کی عوام کی سائیکی کیا ہے اور اسے راہِ راست پر کس طرح لایا جا سکتا ہے۔
ہمارے قوانین سمجھ کر بنائے جانے چاہیں نہ کہ کسی دوسری قوم سے مستعار لے کر۔