ساون ماہ چمکی کڑک مار بجلی، گھٹاں کالیاں کالیاں آئیاں نے
اودھر امبر جھڑیاں ایدھر نین جھڑیاں، دوہاں خوب جھڑیاں امبراں لائیاں نے
کوئی وقت تھا کہ ساون برستا تھا تو بچے گلیوں میں نہانے نکلتے تھے اور گھروں میں عورتیں ساون کی نتھری نتھری بارشوں کا پانی جمع کرتی تھیں۔ بارش تھم جانے کے بعد اس آبِ شفا کو باریک کپڑے سے مزید نتھار کر پی لیا جاتا تھا یا بعض اوقات ابال کر بھی استعمال کر لیا جاتا تھا۔
پکے گھروں میں تو بارشوں کا پانی جمع نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ انکے پاس پینے کو منرل واٹر ہوتا تھا اور نہانے کو سپلائی کا پانی۔ بارشوں کا استقبال کچے گھروں میں ہوتا تھا اور بادل کی گرج گاؤں میں ہی مقدس گردانی جاتی تھی کیونکہ گاؤں کے لوگوں کو فصلوں کی نشو و نما کے لیے بارشوں کے پانی کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے۔ ٹیوب ویل کے پانی سے پہلے نہری پانی اور بارشوں کے پانی پر ہی انحصار کیا جاتا تھا جبکہ بعد میں ٹیوب ویل کے آنے سے لوگوں کو مزید آسانی ہو گئی۔
بارشوں کو بھی کام سے چھٹی ملی اور بادل آرام کرنے لگے۔
آہستہ آہستہ آسمان نے یہ معلوم کر لیا کہ انسان کو اسکی ضرورت نہیں رہی لہذا اس نے بھی اپنا منہ موڑ لیا اور کہیں خلاؤں میں گم ہو گیا۔
بڑے بزرگوں سے ہم سنا کرتے تھے کہ ساون کے مہینے میں خوب بارشیں برستی ہیں اور بھادوں کا مہینہ شدید حبس کا مہینہ ہوتا ہے۔
لیکن اب تو صورت حال مختلف ہوتی جا رہی ہے۔ موسم تبدیل ہو رہے ہیں اور اسکا ذمہ دار جدید انسانی معاشرہ ہے۔ ٹیکنالوجی کے فروغ سے اور انڈسٹریلائزیشن کے بڑھتے ہوئے رجحان سے اوزون لئیر میں سوراخ ہوتے چلے جا رہے ہیں اور یہ زمیں لپٹتی چلی جا رہی ہے۔
فیصل ہاشمی کا شعر ہے
رواں داوں ہے تری سمت اس سبب سے کوئی
زمیں لپیٹ رہا ہے کہیں عقب سے کوئی
تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے خدا زمین لپیٹ رہا ہے اور موسموں میں تبدیلی آتی جا رہی ہے۔ رواں سال بھی آپ نے یہاں مشاہدہ کیا ہو گا کہ ساون میں بلکل بارشیں نہیں ہوئیں۔ جبکہ بھادوں جیسے ساون کی طرح برس رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے انسانوں کی گنتی خراب ہو گئی ہو اور آدمی تاریخیں بھول گیا ہو کہ ساون تو اب آیا ہے اور بھادوں تو جیسے ابھی آنا ہو۔
انسان کو یقیناََ درخت زیادہ سے زیادہ لگانے ہوں گے تا کہ اس بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کو کم کیا جا سکے اور اس دنیا کو پھر سے رہنے کے قابل بنایا جا سکے۔
پچھلے پچاس سال میں انسان نے اس زمیں کی اتنی تباہی پھیر دی ہے تو سوچیے آنے والے پچاس سالوں میں اس زمین کا کیا حال ہو گا۔