پاکستان کے تمام صوبوں کی نسبت پنجاب میں عورتوں کے ساتھ زیادتی کے مقدمات کی تعداد زیادہ ہے۔ اس حوالے سے پنجاب کے بڑے شہر آگے ہیں۔ یہ لعنت کا طوق پہننے والے بڑے شہروں میں لاہور کا نام سرِ فہرست نظر آتا ہے۔ ہمارے ملک میں ان زیادتیوں کے خلاف جگہ جگہ مظاہرے کیے جاتے ہیں اور ملزمان کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا جاتا ہے۔
لیکن تازہ ترین اطلاعات کے مطابق صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے50 سے زیادہ مقدمات جھوٹے نکلے ہیں۔
سال 2021 میں شہرِ لاہور کے تھانوں میں 368 مقدمات درج کیے گئے جن میں سے 113 کیسز ابھی تک زیرِ سماعت ہیں۔ پولیس نے 86 مقدمات کے چالان مکمل کرکے عدالتوں میں جمع کروائے جبکہ اطلاعات کے مطابق عدم پیروی ، صلح اور تفتیش کی بنیاد پر 101 مقدمات کو خارج کر دیا گیا۔
درج مقدمات میں سے 42 خواتین نے اپنا میڈیکل ہی نہیں کروایا اور بے گناہ 61 افراد کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کرائے گئے۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق نامعلوم 72 ملزمان کو پولیس ابھی تک گرفتار نہیں کرسکی اور 14 ملزمان کو اشتہاری قرار دے دیا گیا ہے۔
اس سب کے تناظر میں یہ بات قابل غور ہے کہ سب سے پہلے اس بات کا دھیان معاشرے کو رکھنا ہو گا کہ اگر کسی کے خلاف ایسا کوئی الزام لگایا جاتا ہے تو اسے مجرم نہ قرار دے دیا جائے کیونکہ یہ صرف عدالت کا حق ہے۔ اسے ملزم ہی رہنے دیا جائے اور تحقیقات مکمل ہونے کے بعد اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کی جائے۔
معاشرے کا چلن ہے کہ جس شخص پر اس طرح کا الزام لگتا ہے اسے ہر ایک کی نظریں چلتے پھرتے نگل جاتی ہیں جبکہ اس نے جرم کیا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ ابھی باقی ہوتا ہے۔
خواتین کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں جو نقطہ نظر رواج پا چکا ہے اس کی روک تھام کے لیے ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مل کر کام کرنا ہو گا اور ریاست کو اس سطح پر لانا ہو گا کہ کوئی بھی شخص ایسا اقدام کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے اور پھر بھی اس جرم کا ارتکاب نہ کرے۔