آج اسلام آباد میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے اہم سماعت ہوئی جس میں کچھ جزباتی منا ظر بھی دیکھنے کو ملے جب دوران سماعت لاپتہ بلوچ نوجوان کی بہن عدالت میں جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور ان کے آنسو بہہ نکلے۔ انھوں نے اپنے بیان میں کہا کہ آصف بلوچ اور کزن رشید بلوچ کو 2018 میں گرفتار کیا گیا، آج 6 سال ہو گئے ان کو کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ ہمارا سارا گھر ختم ہو گیا، 6 سال سے دھکے کھا رہے ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ اس بچی کے سوالات کا جواب کسی کے پاس ہے؟ انہوں نے نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی سے مکالمہ کرتے ہوئے سخت ریمارکس میں کہاکہ یہ لاپتہ افراد بازیاب نہ ہوئے تو آپ اور نگران وزیراعظم پر ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دوں گا۔
لاپتہ افراد بازیاب نہ ہوئے تو وزیراعظم اور وزیرداخلہ کیخلاف مقدمہ درج کرائیں گے،پھر آپ کو اور وزیراعظم کو گھر جانا پڑے گا، بڑے واضح الفاظ میں آپ کو یہ بات سمجھا رہا ہوں،نتائج کچھ بھی ہوں ہم قانون کی حکمرانی کیلئے کوشش کررہے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں طلبہ بازیابی کیس کی سماعت ہوئی،جسٹس محسن اختر کیانی نے درخواست پر سماعت کی، نگران وزیرداخلہ اور سیکرٹری داخلہ عدالتی احکامات پر پیش ہوئے۔دوران سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ اس ملک میں امن کیلئے ہمارے اداروں کی بہت قربانیاں ہیں،پاک فوج اور دیگر اداروں کے افراد نے جوشہادتیں دیں اس کی وجہ سے یہ نظام چل رہا ہے،جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ ایک دوسرا اینگل انسانی حقوق کا ہے، وہ بھی دیکھنا ہے۔
وزارت داخلہ نے لاپتہ افراد کے معاملے پر ایڈیشنل سیکرٹری کو فوکل پرسن مقرر کردیا،عدالت نے درخواست گزار کو تمام لاپتہ افراد کی تفصیلات فوکل پرسن کو فراہم کرنے کا حکم دیدیا،عدالت نے کہاکہ فوکل پرسن لاپتہ افراد سے متعلق کیس ٹو کیس تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرینگے۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ بڑے عہدوں پر بیٹھے افراد خود کو مستثنیٰ نہیں کر سکتے،کوئی مر جائے تو خاندان کو بھی تسلی اور یقین آ جاتا ہے،لاپتہ افراد کے خاندان ساری زندگی ٹراما میں رہتے ہیں،میں نے اپنا مائنڈ بتا دیا ہے، بڑے واضح الفاظ میں آپ کو یہ بات سمجھا رہا ہوں،نتائج کچھ بھی ہوں ہم قانون کی حکمرانی کیلئے کوشش کررہے ہیں،ایک ہفتے میں آپ ان افراد سے ملاقات کریں اور مسئلہ حل کریں۔