پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ناروا سلوک پر اب ان لوگوں کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہونے لگا ہے جو نون لیگ کی حمایت میں مسلسل بات کرتے رہے ہیں -اور اب تو مسلم لیگ کی سینیٹر نے بھی تحریک انصاف کے سینیٹر کی حمایت میں تحریک انصاف کے ساتھ کیے جانے والے سلوک پر عدم اعتماد کردیا اور گرفتار سینیٹرز کے پروڈکشن آرڈر جاری کرکے ان کو سینیٹ میں بلانے کا مطالبہ کردیا جو انتہائی بڑی خبر ہے -اسی طرح جیو نیوز میں پراگرام کرنے والے اور جنگ اخبار کے لیے کالم لکھنے والے سینئر صحافی سہیل وڑائچ بھی عمران خان کے ساتھ ہونے والے سلوک پر خاموش نہ رہ سکے -ان کا کہنا تھا کہ عمران نے جو جرم تھوڑی بار کیا ہے وہی جرم میاں صاحب نے زیادہ بار کیا ہے، یہ الگ بات ہے کہ میاں صاحب نے ہر بار مقتدرہ سے دوبارہ صلح کر لی -عمران خان اس لچک سے عار ی ہیں یہی بات ہے کہ وہ مسلسل مشکل میں ہیں ۔ انھوں نے نواز شریف دور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ حملے میں ملوث مسلم لیگ (ن) کے لوگوں کو انفرادی سزائیں ہوئیں مگر 9مئی کے واقعے کی تحریک انصاف کو اجتماعی سزا دی جا رہی ہے یہ کھلا تضاد ہے۔عمران کو ’’ تن‘‘ دینے کا مشورہ دینے والوں سے گزارش ہے کہ اگر کل کو نواز شریف کی بطور وزیر اعظم مقتدرہ سے نہ بن سکی تو پھر آپ کا بیانیہ کیا ہو گا؟ -کیونکہ سب جانتے ہیں کہاقتدار میں آنے کے بعد نواز شریف ماضی میں کیا کرتے رہے ہیں ان کی کسی آرمی چیف سے نہیں بنی اور اسی وجہ سے ہر بار انہیں وزیراعظم کی کرسی سے ہٹا یا گیا –
سہیل وڑائچ نے لکھا ہے کہ عرض کیا تھا کہ جو سلوک وزیر اعظم عمران خان کے دور میں نواز شریف اور ان کی جماعت سے ہوا، نواز شریف کو وہ سلوک دہرانے کی بجائے مفاہمت کا ہاتھ بڑھانا چاہیے۔ اس سادہ اور سیدھی بات میں یہ سبق پوشیدہ ہے کہ ’’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے‘‘ یا صدیوں پرانی ضرب المثل میرے سامنے تھی کہ ’’جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ انتقام کا سلسلہ رکنا چاہیے وگرنہ جو آج عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے کل کو پھر نواز شریف کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ بظاہر یہ معاملہ فوراً سمجھ میں آ جانا چاہیے تھا مگر اقتدار کو قریب آتے دیکھ کر جوش انتقام بڑھنا شروع ہو گیا ہے اسی لیے کل تک جس ادارے کو طنزیہ طور پر خلائی مخلوق اور پتلیوں کا کھیل کہا جا رہا تھا اب اسے احتراماً کلید بردار کہا جا رہا ہے ۔
9مئی کے واقعہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے تحریر کیا کہ میں نے ٹی وی شو پر عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ 9مئی کے واقعات میں ملوث تمام لوگوں کو پارٹی سے نکال دیں بالکل اسی طرح جیسے محترمہ بے نظیر بھٹو نے طیارہ اغواء کے بعد الذوالفقار سے پیپلز پارٹی کو بالکل علیٰحدہ کر لیا تھا یوں انکی حکمت عملی سے پارٹی بچ گئی تھی۔ افسوس کہ عمران خان نے سیاسی جماعتوں سے مصالحت کے ہمارے مشورے کی طرح اس تجویز کو بھی نہ مانا ا ور اب وہ اس کی سزا بھگت رہے ہیں ۔
اپنے بلاگ میں سہیل وڑائچ نے مزید لکھا کہ 9مئی کی تہہ میں جائیں تو اصل بات تو عمران کا یہ جرم ہے کہ وہ 2فوجی سربراہوں سے اختلاف رکھتا تھا یہ واقعی جرم ہے مگر بالکل یہی جرم نواز شریف نے 6 بار کیا ہے، عمران خان کی جنرل باجوہ سے نہیں بنی جبکہ نواز شریف کی نہ جنرل اسلم بیگ سے بنی نہ جنرل آصف نواز سے نباہ ہو سکا نہ جنرل وحید کاکڑ کے ساتھ چل سکے نہ جہانگیر کرامت کےساتھ گزارا ہوا نہ ہی جنرل مشرف سے اچھے تعلقات رہے اور پھر آخر میں جنرل باجوہ سے بھی انکی لڑائی ہو گئی تھی۔ انھوں نے اقتدار کی کرسی پر بیٹھے لوگوں کو سمجھایا کہ عمران کو ’’ تن‘‘ دینے کا مشورہ دینے والوں سے گزارش ہے کہ اگر کل کو نواز شریف کی بطور وزیر اعظم مقتدرہ سے نہ بن سکی تو پھر آپ کا بیانیہ کیا ہو گا؟ دوسری طرف اگر کل کو عمران خان سے مقتدرہ کی صلح ہو گئی تو کیا پھر بھی (ن) لیگ مقتدرہ کے اقدامات کی حمایت کرے گی؟ انھوں نے نون لیگ کے بدلتے بیانات کے حوالے سے لکھا کہ ( ن )لیگ نے اپنے مؤقف میں جو قلابازیاں کھائی ہیں آنے والے دنوں میں یہ انہیں شرمندہ کریں گی۔ یاد رہے کہ شہباز شریف کے دور حکومت کے بعد پنجاب سمیت ملک بھر میں نون لیگ کا ووٹ بینک بری طرح متاثر ہوا ہے جبکہ تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف آسمان چھورہا ہے -مگر عمران خان کی میں نہ مانوں کی رٹ ان کے اور ان کی جماعت کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے -مگر انھوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اب الیکٹیبلز کی بجائے عوام پر انحصار کریں گے خواہ الیکشن میں اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے –
عمران خان کی نسبت نواز شریف کا جرم زیادہ بڑا ہے ؛سہیل وڑائچ
Leave a comment
Leave a comment