چیف جسٹس پاکستان نے 34 سال سے فریاد لےکر عدالتوں کے دکھے کھانے والی خاتون کو انصاف دلوادیا -چیف جسٹس نے اہم ریمارکس دیے کہ ہماری عدالت نے کبھی ایسا کیس نہیں دیکھا جس مین کوئی مرد آکر کہے کہ میری وراثت پر بہن یا کسی اور رشتے دار خاتون نے قبضہ کررکھا ہے -یا بھائی نے وراثت کی زمین پت بہن نے قبضہ کرلیا ہو ۔ سپریم کورٹ نے ماموں کو خاتون کی قبضہ کی گئی 5 مربع زمین کا فوری قبضہ بھانجی کو دینے کا حکم جاری کیا اس کے علاوہ ، ماموں کو قانونی چارہ جوئی کے تمام اخراجات بھی بھانجی کو ادا کرنے کا حکم دیا ، دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ خواتین کے حقوق کو غیر آئینی اور غیر شرعی طریقے سے سلب کیا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سے کہا کہ شرافت سے زمین سارہ اخترکے حوالے کر دیں۔درخواستگزار کے وکیل نے کہا کہ بھانجی نے اپنی زمین 1989ء میں ماموں کو فروخت کی، مگر فروخت کے 20 سال بعد دستخط سے انکاری ہو گئیں۔اور عدالت چلی آئیں

اس پر بینچ میں شامل جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے زمین کی خریداری ثابت کرنا خریدار کا کام تھا۔سارہ اختر کے وکیل نے کہا کہ زمین کی مبینہ فروخت کے وقت سارہ اختر نابالغ تھی، سارہ کے ماموں سردار منصور سابق چیئرمین ضلع کونسل ہیں اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے اس نے زمین اپنے کمسن بچوں، اہلیہ، ساس اور سالے کے نام منتقل کرائی اور اپنی بہن اور اس کی بچی کو اس کے حق سے محروم کیا -اس طرح چیف جسٹس نے کمزور اور لاچار کی مدد کرکے نہ صرف انصاف کی اعلیٰ مثال بھی قائم کی اور عدلیہ کے وقار میں بھی اضافہ کیا –