سینئر صحافی اور کالم نویس حامد میر نے لکھا ہے کہ ’تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویز الٰہی کی بار بار گرفتاری اور رہائی کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ یہ ایک پرانی کہانی ہے جسے ہماری سیاست میں بار بار دہرایا جاتا ہے البتہ اس کہانی کے کردار بدل جاتے ہیں۔یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ پاکستان کی جمہوریت آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں 1958ءمیں کھڑی تھی۔ یہ میں اس وقت کی بات کررہا ہوں جب چوہدری پرویز الٰہی کے چچا چوہدری ظہور الٰہی ڈسٹرکٹ بورڈگجرات کےچیئرمین تھے ۔

حامد میر نے اپنے کالم میں لکھا کہ اکتوبر 1958ءمیں جنرل ایوب خان نے جب مارشل لاء نافذ کر دیا تو ایک دن گجرات میں چوہدری ظہور الٰہی کے گھر کے باہر کچھ فوجی ٹرک آئے ان میں سے اترنے والے جوانوں نے پہلے تو ان کےگھر کی دیوار کو گرایا اور پھر چوہدری ظہور الٰہی کو گرفتار کرکے لے گئے ۔پھر ایک فوجی عدالت میں چوہدری ظہور الٰہی پر مقدمہ چلا اور انہیں میونسپل کمیٹی کی چھ اِنچ زمین پر قبضہ کرنے کے الزام میں چھ ماہ قید کی سزا سنا دی گئی ۔اس قید سے چوہدری ظہور الٰہی نے یہ سبق سیکھا کہ فوجی حکومت کو ناراض کرکے پاکستان میں سیاست کرنا بہت مشکل ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ جنرل ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ میں شامل ہوگئے ۔

 

 

کل میڈیا سے بات کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ پرویز الہی نے اسٹیبلیشمنٹ سے تین بار ایک وعدہ کیا مگر ہر بار انھوں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا اور تحریک انصاف کے ساتھ مل گئے جس پر اسٹیبلیشمنٹ بھی ان سے ناراض ہے اور اتحادی حکومت بھی ان سے خفا ہے انہی کی وجہ سے حمزہ شہباز کی حکومت گئی اور آصف علی زرداری کا مشن بھی نامکمل رہا تھا جس کے بعد انھوں نے پرویز الہی سے کہا تھا کہ آج سے ہماری تمہارے ساتھ سشمنی چل پڑی ہے اب تمہیں یہ بھگتنی پڑے گی -حامد میر نے اپنے کالم اور میڈیا بیان کے ذریعے پرویز الہی کو پیغام دیا کہ ایک پریس کانفرنس کرو پی ٹی آئی چھوڑو اور آرام سے دوبارہ سیاست کرو ورنہ اس سے بھی برے حالات کا سامنا انہیں آنے والے دنوں میں کرنا پڑے گا –