ایک طرف وہ پاکستانی ہیں جن کی تنخواہ 30 ہزار سے بھی کم ہے اور وہ 200 یونٹ کا بل 10 ہزار سے زائید بھر رہے ہیں دوسری جانب واپڈ افسر کی موجیں لگی ہوئیں ہیں، ان کے 1200 یونٹ کا بل صرف اور صرف 716 روپے ہے ۔یہی وہ اقدامات ہیں جو لوگوں کو حکومت کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے پر مجبور کررہے ہیں -لوگ اب ایک کمرے تک محدود ہوگیے ہیں تاکہ ایک پنکھا ہی چلے اور یونٹ 200 سے کم رہیں -مگر واپڈا افسران کو 1200 یونٹ فری دیے جارہے ہیں لوگوں کو پتہ ہے کہ ان کے ان یونٹس کا بل ان کی تنخواہوں سے پورا کیا جائے گا –

 

گزشتہ حکومت نے جانے سے قبل عوام پر بجلیاں گراتے ہوئے پٹرول کی قیمت آسمانوں پر پہنچا دی مگر انھوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جاتے جاتے وہ بجلی اتنی زیادہ مہنگی کر کے شہریوں کیلئے وبال جان بن گیاہے ۔ اور وہ احتجاج کے لیے باہر سڑکوں پر آنے پر مجبور ہو گئے ہیں -لوگ توقع کررہے تھے کہ نگران حکومت آئے گی تو ان کے زخموں پر مرہم رکھے گی مگر اس نے تو اور زخموں پر نمک چھڑکنا شروع کردیا – نگران حکومت نے آتے ہی سب سے پہلا وار پٹرول کی قیمت 20 روپے تک بڑھانے کا کیا اور دوسرا وار اب پانچ روپے سے زائد فی یونٹ بجلی کی قیمت بڑھا کردیاہے ۔

 

 

 

عوام کے زخمی دلوں کو اس وقت اور ٹھیس پہنچی جب یہ خبر منظر عام پر آئی جہاں عوام بجلی کے بلوں کے وزن تلے دب رہی ہے وہیں لاکھوں روپے کی تنخواہ لینے والے واپڈا کے ’ غریب ‘ افسر اپنے بجلی کے بل ادا کرنے کے بھی قابل نہیں ہیں ،ان پر خصوصی رحم کرتے ہوئے ادارے کی جانب سے 1200 یونٹوں کا بل صرف اور صرف 716 روپے بھیجا جا رہاہے کوئی اس افسر سے پوچھے کہ اتنے یونٹ خرچ کیسے کیے -۔یہ بل جب سینئر صحافی حامد میر کے سامنے آیا تو وہ بھی تلملا اٹھے اور انہوں نے اس بے جا اور ظالمانہ سبسڈی پر بھی آواز اٹھاتے ہوئے کہا کہ آخر کار یہ سب کب بند ہو گا۔؟مگر لگتا ہے کہ اس نظام نے سوچ لیا ہے کہ جب تک اس کے خلاف بغاوت نہیں ہوجاتی یہ بدلنے والا نہیں –