آگ لگنے کی صورت میں پائلٹ اپنی جان کیسے بچاتا ہے ؟
انسان خلاؤں میں دیکھتا تھا اور سوچتا تھا کہ وہ کبھی آسمان کو چھو بھی سکے گا ؟
انیس سو تین 1903 میں اسکا یہ خواب پورا ہوا اور وہ ہواؤں میں اڑنے لگا۔۔ اس نے جہاز ایجاد کر لیا۔ لیکن جس طرح زمین پر ایجادات کے ساتھ ساتھ حفاظتی اقدامات ضروری تھے اسی طرح آسمان پر اڑنے کے لیے بھی اپنی جان کی حفاظت لازمی امر تھی۔
یوں تو جہازوں کی مختلف قسمیں ہیں۔ کچھ جہاز مسافروں کی آمد و رفت کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، کچھ ساز و سامان ڈھونے کے لیے اور کچھ جنگوں میں استعمال کیے جاتے ہیں۔
ہنگامی صورت حال تو ہر جہاز کو پیش آ جاتی ہے لیکن آج تک ایسی صورت حال زیادہ تر ان جہازوں کے ساتھ پیش آئی جو جنہیں جنگ میں استعمال کیا جاتا ہے۔
ایسی صورت حال میں پائلٹ کے با حفاظت انخلا کے لیے جہازوں میں مختلف طریقے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔۔
انیس سو سولہ 1916 میں ایک برطانوی ریلوے انجینئر نے ایک ایسی سیٹ ایجاد کی جس کے نیچے ہوا سے بھرا ہوا ایک بستہ لگا ہوتا تھا اور ہوا کے پریشر سے اسے ہنگامی صورت حال میں کھولا جاتا تھا جس کی صورت میں پائلٹ کی کرسی اوپر اٹھ جاتی تھی اور وہ باہر چھلانگ لگا سکتا تھا۔۔ لیکن اس میں خرابی یہ تھی کہ اس کرسی کے ساتھ کوئی پیراشوٹ نہیں لگائی گئی تھی جس کی وجہ سے بہت کم کوئی پائلٹ اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوتا تھا۔ وہ کسی پتھر پر گر کر مر جاتا تھا یا میدان میں گر کر بھی پائلٹ کے بچنے کے امکانات بہت کم ہوتے تھے۔۔
انیس سو چالیس 1940 میں ورڈ وار ٹو کے دوران جرمنی کی ایک کمپنی نے بہتر تجربہ کیا اور ایک ایسی سیٹ بنانے میں کامیاب ہو گئے جس میں پیراشوٹ کے ذریعے پائلٹ باہر نکل سکتا تھا۔۔ شروع میں اسے ٹیسٹ کرنے کے لیے بڑے بندروں کو جہازوں میں بٹھا بٹھا کر ہوا میں بھیجا گیا اور آپریشن مکمل کیا گیا۔
جہاز سے چھلانگ لگانے کے لیے کم از کم 140 فٹ اونچائی ضروری ہے۔ اس سے کم اونچائی کی صورت میں پائلٹ کی پیراشوٹ کھلنے اور لینڈ کرنے تک پائلٹ زمین پر آ گرے گا۔ لیکن جدید سیٹیں اس انداز مٰں بنائی گئی ہیں کہ 100 فٹ کی دوری سے بھی ہوا پریشر سے سیٹ کھول کر چھلانگ لگائی جائے گی تو جان بچ جائے گی۔۔
آج تک پوری دنیا میں 93 ائیرفورسز کے 7402 پائلٹس اپنی جان بچا چکے ہیں۔
ایجکشن ٹائی کلب نامی ایک کمپنی اس طرح اپنی جان بچا پانے والے پائلٹس کو ایوارڈ بھی دیتی ہے۔
مسافروں کے جہازروں میں صرف پائلٹ ہی نہیں بلکہ مسافروں کی جان بچانا بھی نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اس لیےپروازوں میں ملٹری دخل اندازی کرتی ہے۔ ایسا تب ہوتا ہے جب جہاز کو کوئی خطرہ ہو۔اگر جہاز میں موجود مسافر یا پھر جس جگہ جہاز فضا میں ہے وہاں پر موجود شہر اور قصبوں کو اس سے خطرہ ہو تو ان صورتوں میں ریاست دخل اندازی کر کے سب کے تحفظ کو یقنی بناتی ہے۔
اگر ائیر ٹریفک کنٹرول کا رابطہ جہاز کے ساتھ وقتی طور پر ٹوٹ جاتا ہے تو آپریٹر فوری طور پر رابطہ بحال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
لیکن اگر پھر بھی رابطہ نہیں ہوتا اور فضائی عملہ دونوں ریڈیو فریکوئنسی پر جواب نہیں دیتا تو اس صورت میں ملٹری کی مدد لی جاتی ہے۔
فائٹر جیٹ آپ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں، آپ کو فون کرتے ہیں، اس کا مقصد یہ معلوم کرنا ہوتا ہے کہ طیارہ محفوظ ہے نا کہ اغوا ہو کر کسی ملک کے دارلحکومت پر گرنے والا ہے۔
اس کے علاوہ اگر جہاز کا کپتان ‘کنٹرول ٹاور کو یہ باور کرواتا ہے کہ طیارہ کسی قسم کی مشکل میں ہے تو بھی ملٹری کی مدد لی جاتی ہے۔‘
’سکاک کوڈز‘ کے ذریعے طیارے کو درپیش بہت سے مسائل کا اشارہ دیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر طیارے کو کسی فنی خرابی کا سامنا ہے یا پھر مواصلات کا نظام خراب ہوگیا ہے یا پھر اگر آپ کو کنٹرول ٹاور کو یہ بتانا ہے کہ طیارے میں کسی قسم کی غیر قانونی مداخلت ہوئی ہے۔
اگر ملٹری طیارے کسی جہاز کو ایسکورٹ کرتے ہیں یعنی اس کا رخ موڑ کر اسے کسی محفوظ جگہ پر اتارنا چاہتے ہیں تو اس صورت میں وہ مسافر طیارے کے آگے ایک خاص فارمیشن میں آجاتے ہیں۔
کپتان کی نشست بائیں جانب ہوتی ہے۔ اس صورت میں ایک ملٹری جیٹ بائیں جانب سے آتا ہے تاکہ مسافر طیارے کے کپتان کو وہ بلکل صاف طور پر نظر آئے۔ اگر دو ملٹری طیارے ہیں تو پھر دوسرا طیارے یا تو دائیں جانب ہوگا یا پھر طیارے کے پیچھے۔
اس موقع پر ملٹری جیٹ مسافر طیارے سے انٹرنیشنل ایمرجنسی فریکوئنسی پر رابطہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ اگر ریڈیو کام نہیں کر رہا اور اس طریقہ کار کے تحت بھی رابطہ نہیں ہو پاتا تو پھر دخل اندازی یا انٹرسیپشن سگنلز کا استعمال کیا جاتا ہے۔
ان سگنلوں کی ایک کتاب ہوتی ہے جس میں یہ درج ہوتا ہے کہ ملٹری جہاز کے کون سے سگنل سے آپ کو کیا کرنا ہے۔
سنیئر پائلٹ کے مطابق ملٹری جہاز رات کے وقت اپنی لائیٹ کو فلیش کرے گا۔ اور دن کے وقت اپنے پروں کو ہلائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ میرے پیچھے آئیں، اور آپ کو اس کی پابندی کرنی ہے۔
ہر پرواز کا ایک فلائٹ پلان ہوتا ہے جو کہ یورو کنٹرول کو دیا جاتا ہے۔ اس میں ہر چیز موجود ہوتی ہے۔ رن وے پر سے جہاز کے اڑنے سے لے کر فلائٹ کا راستہ اور یہ کہ فلائٹ کہاں لینڈ کرے گی۔ لیکن ملٹری انٹرسیپشن کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ فلائٹ پلان کھٹائی میں پڑ جاتا ہے۔
پائلٹ ایسی صورت میں بہت زیادہ پریشان ہوتے ہیں۔ انھیں نہیں پتا کہ کیا ہو رہا ہے، ہم کہاں جارہے ہیں؟ وہاں ائیرپورٹ کیسا ہوگا؟ وہاں کا موسم کیسا ہوگا؟ ہمارے پاس اپروچ پلیٹس نہیں ہیں۔
فلائٹ پلان کے غیر موجودگی میں پائلٹ کی فیصلے لینے کی صلاحیت میں کمی آتی ہے اور ساتھ ہی آپ یہ نہیں پلان کر پاتے کہ جہاز کو کیسے زمین پر حفاظت سے اتارنا ہے۔
لیکن ایسی صورت میں صرف ملٹری آپریشن ہی جہاز کی اور پائلٹ کی مدد کرتاہے۔