گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکر اصغر زیدی (ستارہء امتیاز) نے نو منتخب چئرمین پی سی بی رمیز راجہ کوا عزازی طور پر فلاپی ہیٹ پیش کی۔
رمیز راجہ بھی دوسری بہت ساری مشہور شخصیات کی طرح اولڈ راوین ہیں۔
گورنمنٹ کالج میں پڑھنے والے طلباء و طالبات کو راوین کہا جاتا ہے۔ اور یہاں سے فارغ التحصیل طلباء و طالبات کو اولڈ راوین کہا جاتا ہے۔
اس سے پہلے ملک کی تمام مشہور شخصیات مادرِ علمی میں تشریف لاتی رہتی ہیں۔
پہلی بار اس ادارے کو مشہور ادیب اشفاق احمد نے درسگاہ کی بجائے درگاہ کہا تھا۔اس کے بعد اس کے بام و در سے محبت کرنے والے اور اس کی علمی و ادبی فضا میں پلنے والے اسے درگاہ ہی کہتے آئے ہیں۔
اس درگاہ نے کئی نامور شخصیات کو جنم دیا جس میں ڈاکٹر ہرگوبند کھرانہ، ڈاکٹر عبدالسلام، ن م راشد، فیض احمد فیض، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، قدرت اللہ شہاب، سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور بہت سی دیگر سیاسی و سماجی شخصیات شامل ہیں۔
جنرل راحیل شریف بھی اپنے دور کے خاتمے سے قبل گورنمنٹ کالج تشریف لائے تھے اور ادارے کے بخاری آڈیٹوریم میں اپنے خطاب کے بعد واپسی پہ گورنمنٹ کالج کے مشہور کلاک ٹاور کے سامنے اپنی گاڑی سے اتر کر طلباء سے ملاقات کی اور سلام لیا۔
اسی طرح رمیز راجہ بھی بطورِ خاص پروفیسر ڈاکٹر اصغر زیدی (وایس چانسلر) کی درخواست پر مادرِ علمی میں تشریف لائے اور اپنی خوشی کے اولین لمحات سانجھے کیے۔
بلاشبہ انکا آنا انکے اپنے ادارے سے انکی محبت ظاہر کرتا ہے۔
طالبعلم تو تعلیم حاصل کر کے آگے نکل جاتے ہیں لیکن ادارہ اگر کسی طالبعلم کو یاد رکھے تو یہ بذات خود اس طالبعلم کے لیے اعزاز کی بات ہوتی ہے۔
بلاشبہ ایسی شخصیات کا اداروں میں آنا اس لیے بھی مفید ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس سے نو واردان متاثر ہوتے ہیں اور انہیں اپنے مستقبل کے حوالے سے ایک نیا عزم ملتا ہے۔ اپنے سینئرز کو ایسے مقام پر دیکھ کر انکے اندر بھی جستجو مچلتی ہے کہ وہ بھی اپنے ادارے سے نکل کر ملک و قوم کا نام روشن کریں۔
جو نقطہ ور قوموں کو راہیں سجھاتے ہیں وہ خود جن اساتذہ اور جن اداروں سے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں ایسے اساتذہ اور ایسے ادارے صدیوں تک قابلِ رشک بن جاتے ہیں۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور بھی ایسا ہی قدیم ادارہ ہے جو آج بھی اپنی روایت کو سنبھالے ہوئے ہے۔
یہ روایت پسند ادارہ اپنی آغوش میں پلنے والوں کو روایت پرستی ہرگز نہیں سکھاتا۔
اسکی قدامت کسی طالبعلم کو قدامت پرست نہیں بناتی۔
ایسے اداروں کے پڑھے ہوئے لوگ بلاشبہ قوموں کی تعمیر میں ہمیشہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔