پنجابی زبان کے عظیم قصہ گو شاعر، ہیر رانجھا کے خالق سید وارث شاہ کے 223 ویں سالانہ عرس کی تین روزہ تقریبات شروع ہوگئیں جو 25ستمبر تک جاری رہیں گی ۔
تقریبات کا آغازمزار کو عرق گلاب سے غسل دیکر کیاگیا۔
اس تقریب میں پارلیمانی سیکرٹری انفارمیشن اینڈ کلچر محمد ندیم قریشی ،فیصل کاسترو ،طلعت فاطمہ نقوی ایم پی اے ، خان شیر اکبر خان ایم پی اے ،ڈپٹی کمشنرمحمد اصغر جوئیہ، رانا طاہر رشید ،چودھری امان سوہل اور دیگر شخصیات نے شرکت کی۔
اس موقع پر میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر محمد اصغر جوئیہ نے کہاکہ عرس کی تقریبات کے موقع پر سکیورٹی کے فول پروف اقدامات کئے گئے ہیں۔
زائرین کیلئے ویکسی نیشن سینٹر قائم کرنے کیساتھ کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔
وارث شاہ پنجاب کے وہ شاعر ہیں جنہیں لوگوں نے شیکسپئر بھی کہا ہے۔ حالانکہ سید علی عباس جلالپوری نے اپنی کتاب ” مقاماتِ وارث شاہ” میں شیکسپئر کے ڈرامہ کے ایک کردار کا موازنہ وارث شاہ کی ہیر کے کردار “سہتی” سے کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ وارث شاہ کا کردار زیادہ مضبوط ہے۔
اس طرح ایک بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ وارث شاہ شیکسپئر سے بڑا شاعر ہے۔
وارث شاہ کا کسی دوسرے شاعر یا ادیب سے موازنہ خود وارث شاہ کے ساتھ زیادتی ہے۔
پنجابی زبان جو انگریزی زبان سے کہیں زیادہ پرانی اور بڑی زبان ہے۔اس زبان کے تمام شاعروں میں بھی سید وارث شاہ کا ایک الگ اور اونچا مقام ہے۔ لیکن یہ بڑائی کسی دوسرے پنجابی شاعر کو چھوٹا بھی نہیں کرتی۔
خود وارث شاہ نے پنجابی کے سب سے پہلے شاعر حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کے دربارِ اقدس پر حاضری دی اور وہیں سے فیضِ روحانی لے کر لوٹے تو ملکہ ہانس کے علاقے میں قیام کر کے ہیر لکھی۔
خود وارث شاہ نے کہا ہے کہ
” شکر گنج نے آن مقام کیتا دکھ درد پنجاب دا دور ہے جی”
اس دور میں وارث شاہ کو سمجھنے والے بہت کم ہیں بلکہ تقریباَََ نا ہونے کے برابر ہیں۔
وارث شاہ کو ماننے والے تو بہت ہیں مگر جاننے والا کوئی نہیں۔
انگریزی تہذیب نے پنجابی تہذیب اور علم کے ساتھ جو کھلواڑ کیا وہی اب رواج بن چکا ہے اور ہمارے معاشرے کی کثیر تعداد اسی احساسِ کمتری کا شکار ہے۔
انگریزیائی ہوئی قوم خیر سے کوئی ایسا بطلِ جلیل پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے جو اس تہذیب کے نمائندہ شاعروں کو پھر سے سمجھ ہی سکے۔
وارث شاہ کے سالانہ عرس کے موقع پہ سب سے زیادہ اس بات کی فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں وارث شاہ کے فلسفے کو پھر سے سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس دور میں جو کچھ ایسے چراغ ہیں کہ جن کی لویں قدیم ادب کے سبب روشن ہیں ، ان سے کوئی فائدہ اٹھا لینا چاہیے۔
وارث شاہ کے سالانہ عرس پہ ہمیں وارث شاہ کی تفہیم کرنی چاہیے اور مل بیٹھ کر ہیر وارث شاہ پر گفتگو کرنی چاہیے۔
پنجابی زبان کوفروغ دینے کا یہ بھی ایک طریقہ ہو سکتا ہے کہ اپنا تمام کام اور اعلی سطح کی گفتگو پنجابی زبان میں کی جائے تا کہ لوگ متاثر ہوں اور صبح کے بھولے ہوئے شام کو ہی سہی ، شاید گھر تو آ جائیں۔