اسلام آباد ہائی کورٹ ایک شہری داؤد غوری کی درخواست پر سمندر پار پٌاکستانیوں کو ووٹ سے محروم کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کی اس پر عدالت نے بدھ کے روز ریمارکس دیے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے عام انتخابات میں ووٹ کا حق دینے والے الیکشنز ایکٹ 2017 بادی النظر میں ترمیم سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے مطابق نہیں ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پچھلی حکومت نے 17 نومبر 2021 کو الیکشن ایکٹ 2017 میں متعدد ترامیم کی تھیں جن میں سمندر پار پاکستانیوں کو الیکٹرانک ووٹنگ کا حق دینا اور عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال شامل تھا۔
تب وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مطلوبہ ترامیم لانے کے لیے الیکشنز بل 2021 پیش کیا تھا۔تاہم اس ماہ کی 26 تاریخ کو موجودہ حکومت نے گزشتہ حکومت کی جانب سے کی گئی تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی سے انتخابات ترمیمی بل 2022 منظور کرایا۔بعد ازاں الیکشنز (ترمیمی) بل 2022 کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔درخواست پر سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نوٹ کیا کہ الیکشن ایکٹ میں حالیہ ترمیم میں سمندر پار پاکستانیوں کے حق رائے دہی کو ختم نہیں کیا گیا۔
جسٹس من اللہ نے نوٹ کیا کہ نہ تو سابقہ اور نہ ہی موجودہ قانون سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ دینے سے محروم کرتا ہے۔
سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ 90 لاکھ کے قریب پاکستانی دیگر ممالک میں مقیم ہیں۔ جس پر جسٹس من اللہ نے استفسار کیا کہ کس حلقے میں ووٹ ڈالیں گے؟
انہوں نے کہا کہ سمندر پار پاکستانیوں کو ان کے ووٹ کے حق سے محروم نہیں کیا گیا تاہم ان کے ووٹ ڈالنے کا طریقہ کار طے ہونا باقی ہے۔
اس کے بعد عدالت نے سماعت 3 جون تک ملتوی کر دی ۔