سابق نگراں وزیر اعظم اور سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے گندم اسکینڈل اور سیاسی صورت حال پر کہا ہے کہ یہ وہ واحد گندم سکینڈل ہے جس میں آٹا مہنگا ہونے کی بجائے سستا ہوا، اور جس کے نتیجے میں 11 کڑور لوگوں کو سستا آٹا اور سستی روٹی ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے حکومت کی جانب سے کسی قسم کے عہدے کی پیش کش نہیں ہوئی، بس، میں، محسن نقوی اور فیصل واوڈا سینیٹ میں آزاد ہیں، ہمیں مینڈیٹ ہمارے صوبائی اراکین نے دیا، ہم فیڈریشن کے نمائندے ہیں، نہ ہمارا ووٹر چھپا ہوا ہے، نہ ووٹر نامعلوم ہے نہ ایجنڈا نامعلوم ہے۔
گندم سکینڈل کے حوالے سے انھوں نے کہا جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے عوام کو سمجھ آ رہا ہے کہ یہ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ سابق نگراں وزیر اعظم نے کہا 2019 میں امپورٹ بل آرڈر کے تحت ویسے ہی گندم منگوانے کی اجازت تھی، نگراں حکومت کے دور میں ہم نے پرائیوٹ سیکٹر کو اضافی گندم منگوانے کی کوئی اجازت نہیں دی تھی، سپلائی اور ڈیمانڈ کے اصولوں کے تحت مارکیٹ کی ڈیمانڈ پورا کرنے کے لیے پرائیوٹ امپوٹرز نے گندم امپورٹ کی۔
انھوں نے کہا یہ ایس آر او تحریک انصاف کی حکومت میں جاری ہوا تھا، جس کی اجازت تحریک انصاف کی حکومت میں دی گئی ہو، اس میں کرپشن کا الزام ہم پر کیسے آ سکتا ہے؟ اب تک نہ حکومتی سطح پر اس کو اسکینڈل تسلیم کیا گیا ہے اور نہ ہی مجھے کسی نے اس معاملے پر طلب کیا ہے، ایک کمیٹی ضرور تشکیل دی گئی ہے جس نے ڈیٹا اکٹھا کیا ہے۔
ملکی امور پر بات کرتے ہوئے نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک میں جہاں منظم جرائم اور دہشت گردی ہو وہاں ریاست کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، جہاں لوگ تشدد پر اتر آئیں وہاں ریاست کی ذمہ داری ہے اپنی پوری طاقت کا استعمال کر کے اس کو روکا جائے، کچے کے ڈاکو پچھلے 6 ماہ کے دوران ابھر کر سامنے آئے ہیں، ڈاکوں نے اپنا گینگ منظم کر کے وارداتوں میں اضافہ کیا ہے، جو حکومت آئی ہے وہ ذمہ داری لے اور اپنا قانونی و آئینی ذمہ داری پوری کرے ۔کاکڑ صاحب جو بھی بہانہ گھڑیں اگر عدالت نے انہین طلب کرلیا تو یہ بیان ان کے لیے درد سر بن جائے گا کیونکہ جب یہ سوال کیا جائے گا کہ آپ نے ان کسانوں کے بارے میں کیوں نہیں سوچا جو گندم اگاکر بھی بھوکے ہیں اور اگلے سال گندم کاشت ہی نہ کرنےکی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں اور کسی بھی وقت ایک بار پھر سڑکوں پرآسکتے ہیں -اور موجودہ حکومت بھی مشکل پڑنے پر ان پر زمین تنگ کرسکتی ہے –