نور الدین زنگی کا شمار ان چند بادشاہوں میں ہوتا ہے جنھون نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزاری اور یہی وجہ تھی کہ رسول پاک نے دنیا سے پرہ فرماجانے کے بعد نورالدین کو اپنے پاس مدینہ بلایا اور ان سے وہ کام کروادیا کہ رہتی دنیا تک امت مسلمہ کا ایک ایک فرد ان کا ممنون و مشکور رہے گا -آج ہم اپ کو اس واقعے کے بارے میں بتائیں گے –
ایک رات نمازِ تہجّد کے بعد سلطان نور الدین زنگی نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو سرخی مائل رنگت کے آدمیوں کی طرف اشارہ کرکے سلطان سے کہہ رہے ہیں کہ “مجھے ان کے شر سے بچاؤ۔” سلطان حیران ہو کر اٹھا۔ وضو کیا’ نفل ادا کیے اور پھر اس کی آنکھ لگ گئی۔ پھر وہی خواب نظر ایا اس پر سلطان نے اپنے سب سے متقی عالم کو اس خواب کی تعبیر معلوم کرنے کے لیے بلایا تو انھوں نے کہا عالم پناہ آپ کو خواب مین دو جہانوں نے شہنشاہ کی زیارت ہوئی ہے اس کا اب کسی سے ذکر نہ کریں اور فوراً مدینہ روانہ ہوجائیں اور وہاں جاکر اپنے ذہن وفراست سے اس کا حل نکالیں ۔ ” اگلے روز سلطان نے بیس مخصوص افراد اور بہت سے تحائف کے ساتھ مدینہ کے لیے سفر کیا اور سولہویں روز شام کے وقت وہاں پہنچ گئے۔ سلطان نے روضہٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دی اور مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں بیٹھ گئے۔ اعلان کیا کہ تمام اہل مدینہ میں پہنچ جائیں جہاں سلطان ان میں تحائف تقسیم کرے گا۔ لوگ آتے گئے اور سلطان ہر آنے والے کو باری باری تحفہ دیتا گیا۔ اس دوران وہ ہر شخص کو غور سے دیکھتا رہا لیکن وہ دو چہرے نظر نہ آئے جو اسے ایک رات میں تین بار خواب میں دکھائے گئے تھے۔ سلطان نے حاضرین سے پوچھا۔ “کیا مدینہ کا ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے۔؟” جواب اثبات میں تھا۔ سلطان نے پھر پوچھا۔ “کیا تمہیں یقین ہے کہ ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے؟” اس بار حاضرین نے کہا۔ “سوائے دو آدمیوں کے۔ “وہ کون ہیں اور اپنا تحفہ لینے کیوں نہیں آئے۔؟” بتایا گیا کہ یہ مراکش کے صوم و صلوٰة کے پابند دو متقی باشندے ہیں۔ دن رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود سلام بھیجتے ہیں اور ہر ہفتے مسجدِ قبا جاتے ہیں۔ فیاض اور مہمان نواز ہیں۔ کسی کا دیا نہیں لیتے۔ سلطان نے کہا۔ “سبحان اللہ !” مگر ان دونوں کو بھی اپنے تحائف وصول کرنے کے لیے فوراً بلایا جائے۔ جب انہیں یہ خصوصی پیغام ملا تو انہوں نے کہا۔ “الحمد للہ ! ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور ہمیں کسی تحفے تحائف یا خیر خیرات کی حاجت نہیں۔ ” جب یہ جواب سلطان تک پہنچایا گیا تو اس نے حکم دیا کہ ان دونوں کو فوراً پیش کیا جائے۔ حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔ ایک جھلک ان کی شناخت کے لیے کافی تھی تاہم سلطان نے اپنا غصہ قابو میں رکھا اور پوچھا۔ “تم کون ہو۔.؟ یہاں کیوں آئے ہو؟” انہوں نے کہا “ہم مراکش کے رہنے والے ہیں۔ حج کے لیے آئے تھے اور اب روضہٴ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سائے میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ” سلطان نے حاضرین سے پوچھا۔ یہ کہاں رہ رہے ہیں؟” بتایا گیا کہ روضہٴ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے بالکل نزدیک ایک مکان میں جو مسجدِ نبوی کے جنوب مغرب میں دیوار کے ساتھ تھا۔ سلطان فوراً اٹھا اور انہیں ساتھ لے کر اس مکان میں داخل ہو گیا۔ سلطان مکان میں گھومتا پھرتا رہا۔ اچانک نئے اور قیمتی سامان سے بھرے ہوئے اس مکان میں اس کی نظر فرش پر پڑی ہوئی ایک چٹائی پر پڑی۔ نظر پڑنی تھی کہ دونوں باشندوں کی ہوائیاں اڑ گئیں۔ سلطان نے چٹائی اٹھائی۔ اس کے نیچے ایک تازہ کھدی ہوئی سرنگ تھی۔ سلطان نے گرج کر کہا۔ “کیا اب بھی سچ نہ بولو گے؟؟؟” ان کے پاس سچ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ مسیحی ہیں اور ان کے حکمراں نے انہیں حاجیوں کے روپ میں کسی نہ کسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ اقدس روضہٴ مبارک سے نکال کر لے آئیں۔ ہم ہر صبح کھدی ہوئی مٹی چمڑے کے تھیلوں میں بھر کر جنّت البقیع لے جاتے اور اسے قبروں پر بکھیر دیتے۔ سلطان ان کی گفتگو سنتے جاتے اور روتے جاتے اور ساتھ ہی فرماتے جاتے کہ “میرا نصیب! کہ پوری دنیا میں سے اس خدمت کے لیے اس غلام کو چنا گیا” سلطان نور الدین زنگی نے حکم دیا کہ ان دونوں کو قتل کر دیا جائے اور روضہٴ مبارک کے گرد ایک خندق کھودی جائے”
سلطان کے حکم کی تعمیل میں روضۂ اطہر کے چاروں طرف اتنی گہری خندق کھودی گئی کہ زمین سے پانی نکل آیا، اس کے بعد اس میں سیسہ بھر دیا گیا تاکہ زمانہ کی دستبرد سے ہر طرح محفوظ رہے۔ یہ سیسے کی دیوار روضۂ اقدس کے گرد آج تک موجود ہے اور ان شاء اللہ ابد تک قائم رہے گی۔ آج بھی اہل اسلام سلطان نور الدین کا نام نہایت محبت اور احترام سے لیتے ہیں اور ان کا شمار ان نفوس قدسی میں کرتے ہیں، جن پر سید البشر نے خود اعتماد کا اظہار فرمایا اور ان کے محب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی تصدیق فرمائی -مگر آج کے مسلمان حکمران ایسے بادشاہوں کی تقلید کرنے کی بجائے مال ودولت سمیٹنے کے چکر میں لگ کر لوگوں کی دنیا اور اپنی عاقبت و آخرت خراب کررہے ہیں –
نورالدین زنگی وہ بادشاہ جسے خود رسول پاک ﷺنے کوئی کام سونپا ؟
Leave a comment
Leave a comment