آج سپریم کورٹ میں صحافیوں کی گرفتاریوں کے حوالے سے سماعت ہوئی -دوران سماعت چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی میڈیا ہاؤس نے بھی اس کی تحقیق کرنا مناسب نہیں سمجھا اور کمشنر سے یہ تک نہیں پوچھا کہ انہیں یہ سب کس نے بتایا ہے چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ میڈیا ہاؤسز کو اس حوالے سے پہلے تحقیق کرنی چاہیے تھی اور اس کے بعد اس طرح کی خبر چلانی چاہیے تھی انہوں نے اٹارنی جنرل پاکستان اور پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے وکیل سے اس بابت پوچھا بھی کہ سپریم کورٹ کا ایک بیان چلانے پر ان تمام میڈیا ہاؤسز کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کر سکتی ہے جس جسٹس پاکستان نے مزید کہا کہ چیف جسٹس پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ میڈیا کی آزادی آئین کے مطابق ضروری ہے اور اس کا ذکر نہ صرف پریس کی آزادی کے حوالے سے موجود آرٹیکلز میں ہے بلکہ دیگر آرٹیکلز میں بھی اس کا تذکرہ کیا گیا ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے وکیل صلاح الدین سے کہا ہے کہ وہ جے آئی ٹی کے حوالے سے جو درخواست انہوں نے دائر کی ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ میڈیا کے دوسرے مقدمات میں بھی عدالت کی معاونت کرے عدالت نے اٹارنی جنرل کو بھی ہدایت کی ہے کہ باقی درخواستوں کی کاپی ابھی صلاح الدین ایڈوکیٹ کو دے دی جائیں عدالت نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی کے حوالے سے اگلی سماعت پر دلائل جو ہے وہ دیے جائیں گے اور اس بارے فیصلہ کیا جائے گا عدالت نے فریکینس سے کہا ہے کوئی اس حوالے سے تیاری کر کے آئیں اور عدالت میں دلائل دیں کیس کی مزید سماعت دو ہفتوں کے بعد ہوگی – سپریم کورٹ اف پاکستان نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے کیس میں ایف ائی اے اور پولیس کی جانب سے جمع کرائی گئی تمام رپورٹس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا ہے اور اگلی سماعت پر دوبارہ سے تازہ ترین رپورٹس عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا ہے جبکہ پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کی درخواست پر ایف ائی اے کی جانب سے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے حوالے سے دائر درخواست پر فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے ان سے دو ہفتوں میں جواب طلب کر لیا ہے۔
سپریم کورٹ نے ایف ائی اے اور پولیس کو ہدایت کی ہے اور ساتھ میں خبردار بھی کیا ہے کہ اگلی سماعت پر تازہ ترین پیش رفت کے ساتھ جواب داخل کیے جائیں اگر ایسا نہ کیا گیا تو عدالت یہ بات سمجھنے پہ مجبور ہو گی کہ یہ دونوں ادارے مجرموں کے ساتھ سہولت کاری کر رہے ہیں انہوں نے یہ ریمارکس پیر کے روز دیے ہیں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی چیف جسٹس پاکستان نے کمشنر کی جانب سے مبینہ طور پر انہیں عام انتخابات میں ملوث کرنے کے بیان پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے
توہین عدالت کے معاملے میں صلاح الدین ایڈوکیٹ نے دلائل میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے پاس توہین عدالت کے حوالے سے اختیارات موجود ہیں اور اس کے لیے انہیں کسی ادارے یا دیگر معاملات سے دیکھنے اور اس بارے کاروائی کرنے کی ضرورت نہیں ہے انہوں نے مزید کہا کہ ایڈیٹوریل ٹیم کو تمام خبروں کی تحقیق کرنی چاہیے اور ایسی کوئی خبر ریلیز نہیں ہونی چاہیے کہ جس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو یا اس میں توہین عدالت کا کوئی پہلو سامنے آتا ہو اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایک شخص بیان دیتا ہے اور پھر اس بیان میں وہ الزامات عائد کرتا ہے تو کیا ایسی خبر کو بغیر کسی تحقیق کے یا اس سے پوچھے بغیر کہ آپ کے پاس کیا ثبوت ہیں کہ جس کی بنیاد پر یہ آپ الزامات عائد کر رہے ہیں اس کے بعد ہی خبر چلائی جانی چاہیے تھی-
اس پر صلاح الدین ایڈوکیٹ نے کہا میڈیا میں معاملات مختلف انداز سے چلتے ہیں اٹارنی جنرل پاکستان نے بتایا کہ الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے ایک باڈی موجود ہے جو اس تمام تر معاملات کا جائزہ لیتی رہتی ہے اور ان کے خلاف کاروائی بھی کرتی رہتی ہے پرنٹ میڈیا میں بھی کوڈ اف کنڈکٹ موجود ہے تاہم سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس کے حوالے سے ابھی تک کوئی کوڈ اف کنڈکٹ موجود نہیں ہے۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صحافیوں کوایف آئی اے نوٹسز اور ہراساں کئے جانے کیخلاف کیس میں آئی جی اسلام آباد پر برہم ہو گئے، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ اٹارنی جنرل صاحب! یہ کس قسم کے آئی جی ہیں؟ان کو ہٹا دیا جانا چاہئے۔سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ایف آئی اے نوٹسز اور ہراساں کئے جانے کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی،صحافیوں پر حملے کے مقدمات میں آئی جی کی غیرتسلی بخش کارکردگی رہی، چیف جسٹس پاکستان نے آئی جی اسلام آباد پر شدید برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ ایک کرائم کی ریکارڈنگ موجود ہے ان ملزمان کا سراغ نہیں لگا سکے؟اٹارنی جنرل صاحب! یہ کس قسم کے آئی جی ہیں؟ان کو ہٹا دیا جانا چاہئے،چار سال ہو گئے اور آپ کو کتنا وقت چاہئے؟کیا آپ کو 4صدیاں چاہئیں-
انسپکٹر جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی صاحب! آپ آئے کیوں ہیں یہاں؟ کیا آپ اپنا چہرہ دکھانے آئے ہیں؟ کسی صحافی کو گولی مار دی جاتی ہے، کسی کی گھر میں جا کر پٹائی کی جاتی ہے۔اس موقع پر پریس ایسوسی ایشن کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ اسد طور جیل میں ہیں، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ وہ کیوں جیل میں ہیں؟ جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ اسد طور پر سرکاری افسران کا وقار مجروح کرنے کا الزام ہے۔جسٹس عرفان سعادت خان نے پوچھا کہ کیا ایف آئی آر میں ان افسران کا ذکر ہے جن کا وقار مجروح ہوا؟ بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ ایف آئی آر میں کسی افسر کا نام نہیں لکھا گیا۔
سماعت کے دوران آئی جی اسلام آباد کے عدالتی سوالات کے جواب نا دینے پر چیف جسٹس نے انسپکٹر جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر سوال کے جواب میں آپ مائی لارڈ، مائی لارڈ کہنے لگ جاتے ہیں، اگر اب مائی لارڈ کہا تو آپ کو جرمانہ کروں گا، لگتا ہے آئی جی اسلام آباد ملزمان کو تحفظ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔سماعت کے دوران آئی جی اسلام آباد کے عدالتی سوالات کے جواب نا دینے پر چیف جسٹس نے انسپکٹر جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر سوال کے جواب میں آپ مائی لارڈ، مائی لارڈ کہنے لگ جاتے ہیں، اگر اب مائی لارڈ کہا تو آپ کو جرمانہ کروں گا، لگتا ہے جی اسلام آباد ملزمان کو تحفظ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اسد طور کے خلاف مقدمہ میں سنگین نوعیت کی دفعات عائد کی گئی ہیں، حساس معلومات سمیت عائد دیگر دفعات کا اطلاق کیسے ہوتا ہے؟ انکوائری نوٹس میں لکھا گیا کہ عدلیہ کے خلاف مہم پر طلب کیا جا رہا ہے لیکن ایف آئی آر میں عدلیہ کے خلاف مہم کا ذکر تک نہیں، یہ تو عدلیہ کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی گئی ہے۔
اس پر بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف مقدمات کے اندراج سے پہلے ہی جے آئی ٹی قائم کی گئی، جے آئی ٹی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار شامل ہیں۔چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کا نمائندہ جے آئی ٹی میں کیسے شامل ہوسکتا؟ آئی ایس آئی انٹیلی جنس ایجنسی ہے قانون نافذ کرنے والا ادارہ نہیں، قانون کا نفاذ آئی ایس آئی کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کیوں نہ ایف آئی اے کو توہین عدالت کا نوٹس دے دیں؟ سپریم کورٹ کے کسی جج نے ایف آئی اے کو شکایت کی نہ رجسٹرار نے، سپریم کورٹ کا نام استعمال کرکے تاثر دیا گیا جیسے عدلیہ کے کہنے پر کارروائی ہوئی، اس طرح تو عوام میں عدلیہ کی ساکھ خراب ہوگی، ایف آئی اے کے متعلقہ افسر خود عدلیہ کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔سپریم کورٹ نے ایف آئی اے اور پولیس کیجانب سے جمع کرائی گئی رپورٹس کو مسترد کر دیا۔ایف آئی اے اور پولیس تفصیلی رپورٹس طلب کرلیں۔سپریم کورٹ نے سماعت 25 مارچ تک ملتوی کردی۔#/s#