مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے ؛وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے -کل اس کا عملی مظاہرہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب 2 دن کی طاقتوروں اور بااختیار افراد کی سرتوڑ کوشش کے بعد بھی آئین ترمیم کا بل پاس نہ ہوا اور قومی اسمبلی اور سینٹ کا اجلاس ملتوی کرنا پڑگیا -وہ حکومتی ارکان اور صحافی جو کئی روز سے میڈیا پر بیٹھ کر زور و شور سے دعوے کررہے تھے کہ بل ہر صورت منظور ہوگا ،نمبر پورے ہیں آج ان کی زبانیں بھی خاموش ہوگئیں خواجہ آصف نے اعتراف کرلیا کہ نمبر پورے نہیں کرپائے -اگر چہ پالیمنٹ سب سے عوام کا پسندیدہ ادارہ ہے یہ وہ ادارہ یاستون ہے جسے عوام نے اپنے فائدے کے لیے بنایا ہے مگر افسوس کہ ہراسمبلی میں ہر موضوع پر بات ہوتی ہے اگر نہیں ہوتی تو عوام کی بات یہاں نظر نہیں آتی اب تک جتنی اسمبلیاں آئیں وہ عوام پر قرضوں کا بوجھ ہی چڑھا کرگئیں -ہر کسی کے دور میں پہلے سے زیادہ مہنگائی ہوئی مگر کسی حکومت نے اپنی اس ناکامی کو تسلیم نہیں کیا بلکہ پچھلی حکومتوں کو کوستے کچھ سال گزارے پھر ان کا بوریا بستر گول کردیا گیا یا انھوں نے وہ طرز حکومت اختیار کیا کہ انہیں گھر بھیجنا ہی پڑا –
آج کےدن ایک قومی اسمبلی کا اجلاس تو ہوا مگر اس میں وہ جان نہیں تھی جو کل نظر آرہی تھی ، میڈیا کوریج بھی نہ ہونے کے برابر تھی -نواز شریف اور شہباز شریف بھی اس اجلاس میں نظر نہیں آئے – کل جو اسمبلی ارکان سے بھرا ہوا تھا آج خالی خالی نظر آی البتہ فرق یہ تھا کہ اس میں حکومتی ارکان اپنی صفائیاں دیتے رہے اور تحریک انصاف والے ان کو لعن طعن کرتے رہے -مگر آج بھی کہیں حکومتی ارکان ہوں یا اپوزیشن ان کی گفتگو میں عوام کا تزکرہ نظر نہیں آیا عوام کو ریلیف کی بات کسی جانب سے بلند نہیں ہوئی –
ایسا لگتا ہے کہ بڑے ہاتھیوں کی لڑائی ہے جس میں عوام صرف روندے جارہے ہیں -آج وفاقی وزیر قانون نے اس بات پر اعتراض کیا کہ پارلیمنٹ کو بے بس کردیا گیا ہے تمام اختیارات ہم سے 2 اداروں نے چھین لیے ہیں اور ہم اپنی طاقت واپس لینے کی بجائے آپس میں ہی لڑ تے جارہے ہیں مگر یہی وہ ممبران پارلیمنٹ تھے جو کل راے گئے تک کسی اور کے حکم پر اپنا تن من دھن قربان کرنے کو بے قرار نظر آرہے تھے –
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں عدلیہ کے حوالے سے کچھ فیصلے کرنے ہیں بالکل یہ پارلیمنٹ کااستحقاق ہے کہ وہ قانون سازی کرے مگر صرف عدالتوں کو اتنا اختیار دے دے کہ وہ یہ جان کر فیصلہ دے دیں کہ جو ممبران قانون سازی کررہے ہیں وہ عوام کے ووٹوں سے آئے ہیں یا کسی اور کے کیونکہ ان کے بارے میں سابق سیاست دان وکلاء یہاں تک کہ ان کی جماعت کے بہت قریب سمجھے جانے والے صحافی بھی ٹاک شوز میں برملا یہ کہتے ہیں کہ یہ فارم 47 پر جیتے ہیں حقیقت میں ہارے ہیں -جے یو آئی ایف کے امیر فضل الرحمان ہوں یا جماعت اسلامی کے نعیم الرحمان جے ڈی اے کی جماعتت ہو یا حکومت کی حمایت کرنے والی اے این پی سب جانتے ہیں کہ ان میں سے 30 سے زیادہ کہیں افراد جعلی مینڈیٹ لے کر آئے ہیں -پی ٹی آئی کا تو دعویٰ ہے کہ 80 سیٹیں ان سے چھینی گئی ہیں اگر ایسا ہے تو یہ لوگ ایسے بل کیسے پاس کرسکتے ہیں جن کو عوام نے اسمبلی بھیجا ہی نہیں –
اب لگتا یہی ہے کہ اگلے 10 سے 15 روز تک اسمبلی اجلاس نہیں ہوگا کیونکہ ارکان اسمبلی و سینیٹ کو 10 روز سے اس بل کی منظوری کے لیے روکا گیا تھا آج ان کی واپسی ہوگئی -اب یہ بل اسمبلی میں آیا تو اس پر ڈیبیٹ ہوگی اس میں ہونے والی خامیوں پر تنقید ہوگی ،کئی شقیں جو عدلیہ پر براہ راست حملے کا تاثر دے رہی ہیں ان کو نکالا جائے گا – ججز کے پر کاٹنے والے جو قوانین اس میں ڈالے گئے ہیں ان پر کاٹا لگے گا -تحریک انصاف کی بات بھی سنی جائے گی اور پھر اگر ممکن ہوا تو یہ بل اسمبلی اور سینیٹ سے پاس ہوگا مگر بظاہر یہی لگتا ہے کہ اب یہ کھیل ختم ہوگیا ہے کیونکہ اب سیاست دان سپریم کورٹ کے ساتھ براہ راست تصادم سے اجتناب کریں گے -اس میں سب سے اہم رول اب الیکشن کمیشن کا ہے جسے سپریم کورٹ کی ہدایت پر تحریک انصاف کو خواتین اور اقلیوں کی مخصوص سیٹیں دینا ہیں اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو پھر سپریم کورٹ کا ایکشن اہم
ہوگا مگر بظاہر یہی لگتا ہے کہ اب الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے آگے سرینڈر کردے گا اور سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق یہ مخصوص سیٹیں پی ٹی آئی کو مل جائیں گی -خدا کرے کہ یہ معاملہ مزید کسی ٹینشن کو ہوا نہ دے کیونکہ پاکستان پہلے ہی مسائلستان بنا ہوا ہے کے پی کے اور بلوچستان کے حالات سب کے سامنے ہیں، معیشت کا برا حال ہے ،بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے ،بینکو ں میں پیسہ ختم ہوگیا ہے دوست ممالک نے مزید پیسے دینے کے لیے کڑی شرائط رکھ دی ہیں اب بھی اگر یہ سیاست دان اور دیگر ادارے مفاہمت کی طرف نہ آئے تو پھر ان سب کا گریبان ہوگا اور عوام کے ہاتھ ہوں گے -کیونکہ عوام اب مزید بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھ پارہے انہیں بازور طاقت چپ تو کروایا جارہا ہے مگر ان کے اندر لاوا پک رہا ہے ، اس لیے دباؤ کا فارمولہ زیادہ عرصے تک چل نہیں سکتا –
ان کو چاہیے کہ ریاست کے چاروں ستون ایک میز پر بیٹھیں اپنی انا ؤں کو ایک طرف رکھیں ایک دوسرے کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں اور ملک کو ذاتی ضد کی بند گلی سے نکال کر کھلے دل کی پٹری پر ڈال دیں ، عوام کو جینے دیں اور ایسی حرکات سے پرہیز کریں جس میں وہ ان ہونی ہوجائے جس کا تزکرہ ہر طرف ہورہا ہے -خدارا پاکستان کوسری لنکا اور بنگلہ دیش نہ بننے دیں – پاکستان کو اسلامی جمہوری مملکت رہنے دیں تماشہ نہ بنائیں-