کائنات میں یوں تو بہت سی برگزیدہ ہستیاں ہیں جو روح اللہ ،کلیم اللہ ، خلیل اللہ، ذبیح اللہ ، صفی اللہ ، یداللہ اور سیف اللہ کہلائے بہت سے فرشتے بھی جلیل القدر ہیں ، فرشتوں کے سردار حضرت جبرائیل علیہ السلام کو روح الامین کا لقب ملا مگر اللہ پاک نے جو مقام اور مرتبہ میرے پیارے رسول محمد مصطفیٰ ﷺ کو عطا کیا وہ کسی دوسری اعلیٰ و ارفع شخصیت کے نصیب میں نہیں آیا بڑے بڑے بادشاہ اور شہنشاہ سر اور گھٹنوں کے بل چل کر آپؐ کے روضہ اقدس پر حاضری دیتے رہے -جب میرے آقا و مولا نبی آخرالزماں ؐﷺ کی دنیا میں تشریف آوری ہوئی تو دنیا ظلم وجور میں ڈوبی ہوئی تھی جہالت کا دور دورہ تھا �،خواتین اور غلاموں کے ساتھ انسانیت سوز واقعات ہونا روز کا معمول تھا مگر آپؐ نے اپنے طرز عمل سے دنیا کے انسانوں کے رہن سہن کا طریقہ ہی بدل کر رکھ دیا -وہ لوگ جو عرب کے جاہل بدو کہلاتے تھے آپؐ کے زیر سایہ تربیت پاکر اصحاب رسول کہلانے لگے -وہ خواتین جو آپؐ کے نکاح میں آئیں ان کو امہات المومنین( رض ) کا لقب مل گیا ان کے حوالے سے اللہ نے اپنی آیات اتاریں اور جو آپؐ کی اولاد تھی وہ اہل بیت کہلائی جس پر رب نے درود وسلام بھیجنے کا حکم دیا اور جو آپؐ کے دشمن اور مخالف ہوئے وہ ملعون و مرتد کہلائے ، دنیا و آخرت میں ذلت رسوائی ان کا مقدر ہوگئی ، وہ دنیا میں ایک گالی اور آخرت میں نار جہنم بن گئے –
ماہ ِربیع الاوّل امت ِمسلمہ کے لیے خاص اہمیت کا حامل مہینہ ہے کیونکہ اس مہینے کو آمنہّ کے لعل، عبداللّہ کے درِّ یتیم حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کی نسبت سے خصوصی شرف حاصل ہے اس ماہ کی 12 تاریخ کو اس عظیم ہستی کا ظہور ہوا جو وجہ تخلیق کائنات ہے جسے سردار انبیا ء ، خاتم االمرسلین اور رحمت اللعالمین کا لقب میرے پاک پروردگار نے دیا -جس پر میرے پاک پروردگار نے ام الکتاب قرآن مجید نازل فرمائی – ۔ اس ماہِ مبارک میں ہی حضورِانور سرورِ کونین حضرت محمدؐ کو دنیا کو اندھیروں سے نکالنے کے لئے بھیجا گیا۔ پیغمبر اکرم ﷺ پوری دنیا کے لئے نمونہ بن کر آئے، وہ ہر شعبے میں اس اوجِ کمال پر فائز ہیں کہ ان جیسا کوئی تھا اور نہ ہی آئندہ آئے گا۔ آپؐ نے علم و نور کی ایسی شمعیں روشن کیں جس نے عرب جیسے علم و تہذیب سے عاری معاشرے میں جہالت کے اندھیروں کو ختم کر کے اسے دنیا کا تہذیب یافتہ معاشرہ بنا دیا، آپ ؐ ﷺ نے اپنی تعلیمات میں امن،اخوت، بھائی چارہ،یکجہتی اور ایک دوسرے کو برداشت کا درس دیا۔
عید میلاد النبی ایک تہوار یا خوشی کا دن ہے جو دنیا بھر میں مسلمان مناتے ہیں، یہ دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت کی مناسبت سے منایا جاتا ہے۔ یہ ربیع الاول اسلامی تقویم کے لحاظ سے تیسرا مہینہ ہے۔ ویسے تو میلاد النبی اور محافلِ نعت کا انعقاد پورا سال ہی جاری رہتا ہے لیکن خصوصاّ ماہِ ربیع الاول میں عید میلاد النبیﷺ کا تہوار پوری مذہبی عقیدت اور احترام سے منایا جاتا ہے۔یکم ربیع الاول سے ہی مساجد اور دیگر مقامات پر میلاد النبی اور نعت خوانی کی محافل شروع ہو جاتی ہیں جن علماء کرام آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت با سعادت، آپ کی ذات مبارکہ اور سیرت طیبہ کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اسی طرح مختلف شعراء اور مردو خواتین ثناء خواںِ رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان اقدس میں نعتیہ گلہائے عقیدت اور درود و سلام پیش کرتے ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں عاشقانِ رسول اپنے گھروں دکانوں بازاروں اور گلیوں کو برقی قمقموں سے سجا تے ہیں ہر گھر اور گلی سے نعت رسول مقبول کی آوازیں کانوں میں رس گھولتی ہیں اور دلوں کو مسرور کرتی ہیں ، روح تازہ ہوتی ہے اور انسان روحانی و قلبی تسکین پاتا ہے بچے ، بڑے زیادہ تر سبز اور سفید اجلے لباس میں آقا ﷺ کی آمد کے گیت گاتے نظر آتے ہیں ۔ جشن عید میلادالنبیؐ کے سلسے میں اسلامی ممالک کی شہر بھر کی مساجد کے ساتھ ساتھ سرکاری عمارات پر رات کو چراغاں کیا جاتا ہے اور یوں شہر دلہن کی طرح سجا نظر آتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ نے ایک شب کے لیے اس دھرتی کو جنت کا روپ دے دیا ہے ۔ علاوہ ازیں کئی تنظیموں کی جانب سے سیرت کانگریس منعقد کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ شہر نبی ﷺ کی محبت میں غار حرا ،صفا و مروہ کی مناسبت سے بچے رات کو بچے پہاڑیاں بناتے ہیں اور اس کو اتنا خوبصورت بنادیتے ہیں کہ شہر بھر سے لوگ جوق در جوق ان پہاڑیوں کو دیکھنے گھروں سے باہر نکل آتے ہیں – لوگوں کی آمد کا یہ سلسلہ اذان فجر تک چلتا ہے –
رسول کریمؐ سے محبت کا تقاضا ہے کہ مسلمان متحد ہو کر امن و آشتی کا درس دیں۔ آپؐ ؐنے امن و محبت، بھائی چارگی اور احترام ِانسانیت کا درس دیا اور یہ پیغام رہتی دنیا تک قائم رہے گا – آپؐ نے بدترین دشمنوں کو معاف کردینے کا جو عملی نمونہ پیش کیا آج بھی اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے میثاق مدینہ کی تقلید ہی تھی جب اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایاگیا -جس کا بنیادی منشور وہی ہے جو رسول پاک نے میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ میں دیا تھا -ہمارا فرض اولین ہے کہ اس دن کو جوش و جزبے سے ضرور منائیں پکوان تیار کریں دودھ اور مٹھائیاں بانٹیں مگر اس سے زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ آپؐ کی تعلیمات پر عمل کریں، نماز قائم کریں ، روزے رکھیں ، رزق حلال کمائیں ، اپنی زبان شائستہ رکھیں ،غریب ،یتیم، بیواؤں اور محتاجوں کا خیال رکھیں، دوسروں کا تمسخر نہ اڑائیں، حسد ، ظلم ،تکبر اور نفرت سے خود کو دور کریں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر روز اس ذات پاک پر دردد بھیجیں جن کی وجہ سے (ہمارا ایمان ہے کہ ) روز قیامت ہماری شفاعت ہوگی ، ہم دیدار مصطفی ﷺ کے لیے اپنی آنکھوں کو پاک کریں ،گناہوں اور لوگوں کی بددعاؤں سے بچیں ، ہم اپنے بچوں کی تربیت سیرت بنی کے مطابق کریں یہ نہ ہو کہ روز محشر ہو اور ہم گناہوں کی شرمندگی کے سبب سرکار دوعالم ﷺ کی جانب نظر اٹھاکر دیکھنے کے قابل ہی نہ ہوں اگر ان کاموں پر عمل کرلیتے ہیں تو پھر میلاد میں شرکت کا جو مزہ آپ محسوس کریں گے وہ آپ کو دنیا کے کسی اور کام میں محسوس نہیں ہوگا اور شافع محشر ،طٰہٰ و یٰسین ،مدثر و مزمل نبی پاک ﷺ کے طفیل جو دعا آپ مانگیں گے وہ ضرور پوری ہوگی –