دنیا میں جب بھی پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں یا کھلاڑی آمنے سامنے آئے دونوں ملکوں میں نفرت کو فروغ ملا -ایک کی ہار پر دوسرے ملک میں جشن منایا گیا -اچھی پرفارمنس کرنے والے کھلاڑیوں پر بھی مخالف ملک میں ایسی ایسی باتیں کی گئیں کہ نفرت کی چنگاریوں کو ہوا ملی مگر
8 اگست 2024 پاکستانی وقت کے مطابق رات 12 بجے جب دنیا ساری نظریں نیرج چوپڑا پر جمی تھیں بھارت میں جیت کا جشن پہلے ہی شروع ہوچکا تھا 12 کھلاڑی فائنل مقابلے کے لیے میدان میں اترے یہ وہ وقت تھا جب پورا بھارت ٹی وی لگا کر بیٹھا تھا مگر پاکستان میں صرف 25 فیصد لوگ ہی اس مقابلے کو دیکھ رہے تھے – سب کی توجہ کا مرکز بھارت ، جرمنی اور گرینیڈا کے اتھلیٹ تھے مگر وہ پاکستان کے ارشد ندیم سے بہت خوفزدہ بھی تھے کیونکہ وہ اس سے پہلے دنیا کے دوسرے بڑے ٹورنامنٹ میں باقی دنیا کے ایتھلیٹس کو پچھاڑ کر گولڈ جیت چکے تھے مگر اس ٹورنامنٹ میں نیرج زخمی ہونے کی وجہ سے شریک نہیں ہوئے تھے اس لیے ارشد کو گولڈ جیتنے کا نسبتا آسان ٹارگٹ ملا تھا جو انہوں نے حاصل کرلیا -مگر اب ان کے سامنے نیرج چوپڑا کھڑا تھا جو 2020 کے ٹوکیو اولمپکس میں پہلا گولڈ گلے میں ڈال چکا تھا
یہی وجہ تھی کہ آج 177 جیولن رکھنے والے نیرج بڑے اعتماد کے ساتھ گولڈ کی توقع کے ساتھ میدان میں اترے وہ اس سے پہلے 4 سال قبل کے ٹوکیو اولمپکس میں سونے کا تمغہ جیت چکے تھے اس لیے اس کا پریشر بھی ارشد پر تھا -مگر آج قدرت ارشد پر مہربان تھی آج پاکستان کی غموں سے بھری پاکستانی قوم ندیم کی کامیابی کے لیے اس لیے بھی دعاگو تھی کیونکہ انہیں عرصہ دراز سے کسی انہونی خبر کی تلاش تھی وہ خبر جو ان کے دلوں کو مسرور کردے -اور پھر اللہ نے اس قوم کی دعا سن لی ارشد کی دن رات کی محنت کا صلہ اللہ پاک نے اکھٹا ارشد کی جھولی میں ڈال دیا اس نے پہلی ٹاری کی تو اس کا پہلا تھرو فاؤل ہوگیا مگر اس نے ہمت نہیں ہاری دوسری بار اپنا جیولن اٹھایا تو بھارت اس کے پہلے تھرو کی وجہ سے اس کی باڈی لینگویج کا مزاق اڑانے لگے اس کی نروس نس کا اظہار کرنے لگے مگر آج ارشد کا دن تھا -وہ جیولن اٹھا کر کھڑا ہوا دل میں اللہ سے دعا کی اسد اللہ کو مدد کے لیے پکارا تھرو کی تو پورے سٹیڈیم میں ایک شور مچ گیا -ارشد نے وہ کارنامہ کرڈالا تھا جو دنیا کا کوئی جیولن ماسٹر 100 سالوں میں نہیں کرسکا تھا –
اس نے اولمپکس کی تاریخ کا نیا ریکارڈ بناڈالا تھا اس نے اپنا نیزہ 92.97 میٹر کے فاصلے پر پھینک دیا تھا اس سے پہلے یہ ریکارڈ جرمنی کے کھلاڑی جین زیلینزی کھلاڑی کے پاس تھا جس نے 90.50 میٹر تک نیزہ پھینکا تھا مگر نیرج کبھی 90 میٹر کی سیما پار نہیں کرپائے – پورے بھارت اور کو تو علم ہوچکا تھا کہ ارشد گولڈ جیت گیا ہے مگر ارشد ندیم کے سوا پاکستانی ابھی اس بات سے لاعلم تھے کیونکہ ارشد نے تو فائنل راؤنڈ سے پہلے ہی فائنل جیت لیا تھا یہ جیولن تھرو کی ہسٹری کا انوکھا واقعہ تھا -اس کے بعد دوسرے کھلاڑی تو گویا سکتے میں آگئے نیرج 4 بار درست تھرو ہی نہ کرپائے اور باقی ایتھلیٹس کے بازو بھی گویا شل ہوکر رہ گئے تھے -مگر ارشد کے ابدر تو آج بجلی بھری تھی دوسری تھرو کے بعد آج ارشد کا مقابلہ اپنی ذات سے ہی تھا اور اس نے اپنی آخری تھرو بھی 90. 95 پھینک کر ثابت کردیا کہ اس کے بازوؤں میں اب بھی وہی دم خم ہے جو ایونٹ شروع ہوتے وقت تھا –
مگر کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی کہانی تو یہاں سے شروع ہوتی ہے جونہی پاکستانی کھلاڑی نے بھارتی ایتھلیٹ کو پچھاڑا تو پاکستانیوں کی جانب سے نیرج کو ٹرول کرنے کی بجائے صرف ارشد کی شاندار کامیابی کا جشن منایا گیا ادھر اسی وقت بھارت میں بھی ارشد ندیم کی کھل کر تعریف کی گئی اسے پہلی بار انڈوپاک کا کھلاڑی سمجھ کر ہیرو کا رتبہ دیا گیا -پاکستان میں رات کے پچھلے پہر دن کا سماں ہوگیا – بھارتیوں نے بھی پاکستانی ایتھلیٹ کی اس جیت کو دل سے قبول کیا اور کھل کر اس کے گیت گائے اور مان لیا کہ ارشد آج کے بعد سے ناقابل تسخیر رہے گا یہ پہلا موقع تھا جب بھارت کی جانب سے عوام نے کھل کر کسی پاکستانی کے فن کی تعریف کی اور جیسے ایک پاکستان کے خلاف زہر اگلنے والے گھٹیا صحافی نے جب ارشد پر ڈرگز لے کر گیم کرنے کا الزام لگایا تو اسی وقت اسے بھارتی میڈیا کی جانب سے شٹ اپ کال دی گئی اور یہ سب ان دو ماؤں کے ریمارکس کی بدولت ہوا تھا جن کی باتیں دونوں ملکوں کے لوگوں کے دلوں میں گھر کرگئیں تھیں-
.مگراب ایسا کیوں ہوا اس کے پیچھے کی کہانی کی بات نہ کی جائے تو دونوں ملکوں کے ان کھلاڑیوں کے ساتھ شدید زیادتی ہوگی –
ارشد کی فتح میں جہاں اس کی دن رات کی محنت تھی وہیں اس میں اس کے بدترین مخالف کی سپورٹ کا عمل دخل بھی تھا نیرج اپنے مدمقابل سے اس کی کمزوری کی وجہ سے نہیں جیتنا چاتا تھا اس کو معلوم تھا کہ ارشد کے پاس انٹرنیشنل کوالٹی کا نیزہ نہیں ہے اس لیے اس نے پاکستانی حکومت سے ارشد کو انٹرنیشنل کوالٹی کا نیزہ فراہم کرنے کی درخواست کی – نیرج نے ارشد کو جس طرح سپورٹ کیا اس سے دونوں ملکوں کی قوم میں بھی فاصلے سمٹے -اور پھر نیرج کی ماں سروج دیوی نے بڑی ماں ہونے کا ثبوت دیا جب انھوں نے یہ الفاظ کہے
ہم نیرج چوپڑا کے سلور میڈل جیتنے پر بھی خوش ہیں، ہمارے لیے سلور بھی گولڈ جیسا ہی ہے۔اُنہوں نے کہا تھا کہ ارشد ندیم نے گولڈ میڈل جیتا وہ بھی میرا بیٹا ہے وہاں تک پہنچنے کے لیے سب محنت کرتے ہیں
۔….پھر دوسرا پازیٹو جیسچر دوسری عظیم ماں کی طرف سے آیا یہ ارشد کی والدہ تھیں انھوں نے بھی کچھ اس طرح گفتگو کی
آج کے اس تاریخ ساز مقابلے نے جہاں پاکستانیوں کو 40 سال بعد خوشیوں سے ہمکنار کیا وہیں یہ مقابلہ محبتیں بانٹنے والا ایونٹ بھی بن گیا -پاکستانی قوم اور میڈیا کی جانب سے نیرج کی والدہ اور بھارتی قوم کی جانب سے پاکستانی ماں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا -سر ونسٹن چرچل نے 60سال قبل کہا تھا مجھے تم اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا گو می گڈ مدرز آئی ول گو یو گڈ نیشن …… ����� �� ���� ������� � ���� ���� ��� ���� ������
اگر چہ پاکستان اور بھارت سے ےعلق رکھنے والی یہ دونوں مائیں واجبی سی تعلیم رکھتی ہیں مگر ان کا شعور ان یورپی ممالک سے تعلیم حاصل کرکے پاکستانی خواتین سے کہیں� بڑھ کر نظر آیا جو میڈیا پر بیٹھ کر صرف دوسروں کی ذات میں کیڑے نکالنے میں مصروف رہتی ہیں -اپنے مخالفین کی اس طرح تزلیل کرتی ہیں کہ مرد حضرات بھی اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال دیتے ہیں –
ہماری پاکستانی اور بھارتی دونوں اقوام سے دست بدستہ اپیل ہے کہ ان خواتین سے محبت بانٹنا سیکھیں ،محبت کا پیغام پھیلائیں اپنے ملک کی ترقی کی بات کریں دوسروں پر کیچڑ نہ پھینکیں اور اگر انھوں نے ان دو ماؤں کو اپنا رول ماڈل بنا لیا تو ان کے گھر میں بھی نیرج اور ندیم جنم لیں گے جو ساری قوم کے لیے عزت و فخر کا باعث ہوں گے اور اپنے اپنے ملک کا نام روشن کریں گے –
ارشد ندیم صدی کا سب سے بہترین نیزہ باز
Leave a comment
Leave a comment